رﺅف طاہر
جنرل اشفاق پرویز کیانی کے نام اپنے اس خط کا انکشاف خود جنرل اسلم بیگ نے قاضی صاحب کے ”چائے خانے“ میں کیا۔ سابق امیر جماعت اسلامی کےCENTER for Discussions and Solutions کو قاضی صاحب کے چائے خانہ کا نام جناب عرفان صدیقی نے دیا ہے۔ انگریزی میں مندرجہ بالا نام طویل اور قدرے مشکل محسوس ہو تو برین سٹارمنگ سینٹر کہہ لیں۔ خیر یہ ایک فروعی بحث ہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر موجودہ آرمی چیف کے نام ایک سابق آرمی چیف کا خط ہے۔ اس موقع پر بزرگ (اور اب عملاً ریٹائرڈ) سیاستدان جناب اصغر خاں کا خط بھی یاد آیا جسے بعض حلقے جنرل ضیاءالحق کے 5 جولائی 1977ءکے مارشل لاءکے جواز کے طور پر بھی پیش کرتے رہے حالانکہ جناب اصغر خاں نے اس وقت کے آرمی چیف اور فوجی افسروں کے نام اس خط میں انہیں کسی غیرآئینی اقدام کی ترغیب نہیں دی تھی بلکہ ان کا مطالبہ تھا کہ فوجی حکام، بھٹو حکومت کے غیرآئینی احکامات کو ماننے سے انکار کر دیں کہ ان پر صرف آئینی حکم کی پابندی واجب ہے۔ یہ 1977 کے عام انتخابات میں بدترین دھاندلیوں کے خلاف تحریک کے دنوں کی بات ہے۔ ریاست کی سول مشینری کے بدترین اور بھرپور استعمال کے باوجود بھٹو صاحب اسے دبانے میں ناکام رہے تو انہوں نے ملک کے بڑے بڑے شہروں کو مارشل لاء(اور کرفیو) کے سپرد کر دیا۔ اس پر اصغر خاں نے 25 اپریل کو کوٹ لکھپت جیل سے فوجی حکام کے نام ایک کھلا خط لکھا .... بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ اس خط پر اصغر خاں کے خلاف قانونی کارروائی پر غور کیا جارہا ہے جبکہ وزیر دفاع، سابق ائرمارشل کو کورٹ مارشل کی دھمکی دے رہے تھے۔ اس طویل خط کی چند سطور:۔”کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دیجئے کہ پاکستان کی مسلح افواج، ایک ایسی دیوالیہ پولیس فورس ہے جس کا کام صرف غیرمسلح شہریوں کو ہلاک کرناہے۔ آپ اس معصوم بچے کو گولی مار کر ہلاک کر دینے کی کس طرح وضاحت کر سکتے ہیں۔ جس نے لاہور میں ”فوج کو وی“ (V) کا نشان دکھایا تھا (یہ انارکلی لاہور میں فوج کے سامنے سینے کھول کر گولی کھانے والے تین نوجوانوں کے واقعہ سے پہلے کا خط ہے، جس پر 3 بریگیڈئروں نے استعفے دےدیئے تھے)۔ یہ منحوس حادثہ پاک فوج کے نام پر ایسا دھبہ ہے جسے صاف کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اس طرح کراچی میں غیرمسلح افراد پر فوج کی فائرنگ بھی ناقابلِ معافی ہے .... جب آپ نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے تو عوام خون کے آنسو روئے۔ انہوں نے خود کو بھوکا رکھا۔ اپنے بچوں کو بھوکا مارا کہ آپ کو پیٹ بھر کر کھانے کو ملے اور آپ کے جرنیل اور اعلیٰ افسر ایسی زندگی گزار سکیں جو برطانوی اور امریکی جرنیلوں کو بھی نصیب نہیں .... مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ فوج سے عوام کی یہ محبت دم توڑ چکی ہے۔ اب خدارا اسے نفرت میں مت بدلنے دیجئے۔ ایک باوقار شخص کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے کہ اپنے فرائض کو انجام دیں لیکن اس کا مطلب غیرقانونی احکامات کی اندھادھند بجاآوری نہیں“....
کیا جنرل کیانی کے نام جنرل اسلم بیگ کے خط کی نوعیت بھی یہی ہے؟ آرمی چیف جنرل کیانی کے نام خط میں ایک سال کےلئے ”قومی حکومت“ کی تجویز ہمارے خیال میں صریحاً ایک غیرآئینی اقدام کی ترغیب ہے۔ کیا فوج کا دانشور جرنیل نہیں جانتا کہ ہمارے بیشتر مسائل کی جڑ آئین سے انحراف ہے۔ فروری 2008ءکے انتخابات (اور ایک فوجی صدر کے ساتھ این آر او کی ڈیل کے تحت) بننے والی حکومت اگر ڈیلیور نہیں کر رہی تو اس کا علاج بھی آئین ہی میں موجود ہے۔ ان ہاﺅس تبدیلی، یہ ممکن نہ ہو تو قبل از وقت انتخابات، ویسے اب فُل ٹرم الیکشن میں بھی کتنا عرصہ رہ گیا ہے؟ اس کے علاوہ جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا، وہ بحران کو سنگین تر کرنے کا باعث بنے گا اور نااہل و بدعنوان حکمرانوں کو مظلوم اور سیاسی شہید بنانے کے مترادف ہو گا۔ چھوٹے صوبوں اور خصوصاً سندھ میں اسے جس طرح ایکسپلائٹ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس پر بھی غور فرما لیجئے۔ ....
جنرل اشفاق پرویز کیانی کے نام اپنے اس خط کا انکشاف خود جنرل اسلم بیگ نے قاضی صاحب کے ”چائے خانے“ میں کیا۔ سابق امیر جماعت اسلامی کےCENTER for Discussions and Solutions کو قاضی صاحب کے چائے خانہ کا نام جناب عرفان صدیقی نے دیا ہے۔ انگریزی میں مندرجہ بالا نام طویل اور قدرے مشکل محسوس ہو تو برین سٹارمنگ سینٹر کہہ لیں۔ خیر یہ ایک فروعی بحث ہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر موجودہ آرمی چیف کے نام ایک سابق آرمی چیف کا خط ہے۔ اس موقع پر بزرگ (اور اب عملاً ریٹائرڈ) سیاستدان جناب اصغر خاں کا خط بھی یاد آیا جسے بعض حلقے جنرل ضیاءالحق کے 5 جولائی 1977ءکے مارشل لاءکے جواز کے طور پر بھی پیش کرتے رہے حالانکہ جناب اصغر خاں نے اس وقت کے آرمی چیف اور فوجی افسروں کے نام اس خط میں انہیں کسی غیرآئینی اقدام کی ترغیب نہیں دی تھی بلکہ ان کا مطالبہ تھا کہ فوجی حکام، بھٹو حکومت کے غیرآئینی احکامات کو ماننے سے انکار کر دیں کہ ان پر صرف آئینی حکم کی پابندی واجب ہے۔ یہ 1977 کے عام انتخابات میں بدترین دھاندلیوں کے خلاف تحریک کے دنوں کی بات ہے۔ ریاست کی سول مشینری کے بدترین اور بھرپور استعمال کے باوجود بھٹو صاحب اسے دبانے میں ناکام رہے تو انہوں نے ملک کے بڑے بڑے شہروں کو مارشل لاء(اور کرفیو) کے سپرد کر دیا۔ اس پر اصغر خاں نے 25 اپریل کو کوٹ لکھپت جیل سے فوجی حکام کے نام ایک کھلا خط لکھا .... بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ اس خط پر اصغر خاں کے خلاف قانونی کارروائی پر غور کیا جارہا ہے جبکہ وزیر دفاع، سابق ائرمارشل کو کورٹ مارشل کی دھمکی دے رہے تھے۔ اس طویل خط کی چند سطور:۔”کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دیجئے کہ پاکستان کی مسلح افواج، ایک ایسی دیوالیہ پولیس فورس ہے جس کا کام صرف غیرمسلح شہریوں کو ہلاک کرناہے۔ آپ اس معصوم بچے کو گولی مار کر ہلاک کر دینے کی کس طرح وضاحت کر سکتے ہیں۔ جس نے لاہور میں ”فوج کو وی“ (V) کا نشان دکھایا تھا (یہ انارکلی لاہور میں فوج کے سامنے سینے کھول کر گولی کھانے والے تین نوجوانوں کے واقعہ سے پہلے کا خط ہے، جس پر 3 بریگیڈئروں نے استعفے دےدیئے تھے)۔ یہ منحوس حادثہ پاک فوج کے نام پر ایسا دھبہ ہے جسے صاف کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اس طرح کراچی میں غیرمسلح افراد پر فوج کی فائرنگ بھی ناقابلِ معافی ہے .... جب آپ نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے تو عوام خون کے آنسو روئے۔ انہوں نے خود کو بھوکا رکھا۔ اپنے بچوں کو بھوکا مارا کہ آپ کو پیٹ بھر کر کھانے کو ملے اور آپ کے جرنیل اور اعلیٰ افسر ایسی زندگی گزار سکیں جو برطانوی اور امریکی جرنیلوں کو بھی نصیب نہیں .... مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ فوج سے عوام کی یہ محبت دم توڑ چکی ہے۔ اب خدارا اسے نفرت میں مت بدلنے دیجئے۔ ایک باوقار شخص کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے کہ اپنے فرائض کو انجام دیں لیکن اس کا مطلب غیرقانونی احکامات کی اندھادھند بجاآوری نہیں“....
کیا جنرل کیانی کے نام جنرل اسلم بیگ کے خط کی نوعیت بھی یہی ہے؟ آرمی چیف جنرل کیانی کے نام خط میں ایک سال کےلئے ”قومی حکومت“ کی تجویز ہمارے خیال میں صریحاً ایک غیرآئینی اقدام کی ترغیب ہے۔ کیا فوج کا دانشور جرنیل نہیں جانتا کہ ہمارے بیشتر مسائل کی جڑ آئین سے انحراف ہے۔ فروری 2008ءکے انتخابات (اور ایک فوجی صدر کے ساتھ این آر او کی ڈیل کے تحت) بننے والی حکومت اگر ڈیلیور نہیں کر رہی تو اس کا علاج بھی آئین ہی میں موجود ہے۔ ان ہاﺅس تبدیلی، یہ ممکن نہ ہو تو قبل از وقت انتخابات، ویسے اب فُل ٹرم الیکشن میں بھی کتنا عرصہ رہ گیا ہے؟ اس کے علاوہ جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا، وہ بحران کو سنگین تر کرنے کا باعث بنے گا اور نااہل و بدعنوان حکمرانوں کو مظلوم اور سیاسی شہید بنانے کے مترادف ہو گا۔ چھوٹے صوبوں اور خصوصاً سندھ میں اسے جس طرح ایکسپلائٹ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس پر بھی غور فرما لیجئے۔ ....