ہرجج کے پاس روزانہ 100سے زائد کیس استعداد سے بڑھ کر کا م نہیں کر سکتے : جسٹس امین الدین 

Jan 25, 2025

ملتان (سپیشل  رپورٹر)سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے سربراہ سینیر جج جسٹس امین الدین خان کا کہنا ہے کہ ہمارے آئین میں ہر شخص کو فئیر ٹرائل کا حق حاصل ہے ،بطور سینیر جج آئینی بنچ ان فیصلوں کا حصہ رہا ہوں جس سے انتخابی شفافیت ، ادارہ جاتی احتساب اور اختیارات کی علیحدگی ممکن ہوئی  یہ صرف فیصلے نہیں بلکہ آئین کو برقرار رکھنے اور سب کیلئے انصاف کو یقینی بنانے کے ہمارے عزم کا عکاس ہیں، محدود وسائل، انفراسٹرکچر انصاف کی فراہمی میں چیلنج ہیں یہ حل کرنا ہوں گے  ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ملتان ہائیکورٹ بار کے زیر اہتمام منعقدہ لا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر سپریم کورٹ آئینی بنچ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کا مزید کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں ایک جج کے پاس دن میں 100 سے زائد کیسز فکس ہوتے ہیں ، ایک جج اپنی استعداد سے بڑھ کر کام نہیں کر سکتا ، اکٹھے مل کر  جدت کے زریعے کیس منیجمنٹ سسٹم کو اپناتے ہوئے انصاف کی فراہمی کو تیز کر سکتے ہیں ،ججز اور وکلا کی ٹریننگ کے زریعے بھی انصاف کی جلد فراہمی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ،تیز انصاف کی فراہمی ، چیلنجز اور مواقع ایک اہم ٹاپک ہے ،محدود وسائل ، انفراسٹرکچر اور پروسیجرز کی انصاف کی فراہمی میں چیلنج ہیں جنہیں حل کرنا ہو گا میرا تعلق ملتان ہائی کورٹ بار سے ہے میں خوش ہوں آج یہاں تیز انصاف کے حوالے سے منعقدہ لا کانفرنس میں خطاب کر رہا ہوں ہمارا آئین ہر شہری کو فئیر ٹرائل کا حق دیتا ہے انہوں نے کہا نوجوان وکلا ہمیشہ سینیٹرز کا احترام کریں سائل اور وکیل کا رشتہ ہی سب سے پیارا رشتہ ہے ادھر لا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے کہا کہ  فیصلے ہمیشہ نیک نیتی سے ہونے چاہیں ،ہر جج کو آزادانہ زہن کے ساتھ کام کرنا چاہیے ، فیصلے قانون کے مطابق ہونے چاہیں اگر کوئی نئی بات سامنے آتی ہے تو فیصلوں میں وہ بات لکھنی چاہیے ، جب سے مصالحتی عدالتوں کا قانون آیا ہے ، اس کے اجراء  کے لئے سہولیات نہیں فراہم کی گئیں ،  ہر سال 50 سے 100 سول ججز کی سیٹیں آتی ہیں ، کامیاب ہونے والے امیدوار 10 ہوتے ہیں ، ہمارا تعلیمی معیار ٹھیک نہیں ہے ،ججز کی سب سے کم تعداد جنوبی پنجاب سے ہے ،  اپنے دور میں کوشش کی ہے سب سے قابل ججز تعینات ہوں  اپنی زمین سے وابستگی ضرور رکھیے گا ، اسکا ہم پر قرض ہے ادھر لا کانفرنس سے لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ کے سینئر جج جسٹس شہباز علی رضوی نے بھی خطاب کیا جبکہ  لاء کانفرنس میں سردار محمد سرفراز ڈوگر  ،جسٹس مزمل اختر شبیر ، جسٹس انوار الحق پنوں،لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء￿  باجوہ ، طارق سلیم شیخ ،لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق ندیم ،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق ،لاہور ہائیکورٹ کے سابق جسٹس خالد علوی ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ملک مسرور حیدر،صدر ہائیکورٹ بار سجاد حیدر میتلا ، جنرل سیکرٹری سید انیس مہدیز ڈسٹرکٹ جوڈیشری سمیت  جنوبی پنجاب بھر کے وکلاء  کی بڑی تعداد نے  شرکت کی ، کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایڈووکیٹ ہائی کورٹ رمضان خالد جوئیہ نے،  چوہدری داؤد احمد وینس ممبر پنجاب بار، ملک حیدر جمال میتلا سابق جنرل سیکرٹری ہائی کورٹ بار، شہباز علی رضوی سینیر جج لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ  نے بھی خطاب کیا ، شہباز علی رضوی نے کہا کہ یہ کانفرنس  بڑی اہم اور وقت کی ضرورت ہے،انصاف کی تاخیر میں آڑے آنے والی وجوہات پر قابو پانا ضروری ہے، ممبر پنجاب بار چوہدری داؤد احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہمیں انصاف میں تاخیر کے اہم مسائل کو حل کرنا ہو گا ،ملک حیدر جمال میتلا سابق جنرل سیکرٹری ملتان ہائی کورٹ بار نے کہا کہ انصاف کی فراہمی وکیل کے چیمبر سے شروع ہونی چاہئے،جھوٹ بولنے والے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے ایڈووکیٹ ہائی کورٹ شیخ جمشید حیات نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنچ اور بار کے باہمی تعلق کو مضبوط بنانا ہو گا،انصاف میں تاخیر کو ختم کرنے کیلئے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے,لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ  کو اب خودمختار ہائی کورٹ میں تبدیل کرنا ہو گا ,نوجوان وکلا اور کورٹ رپورٹرز کی تربیت کا اہتمام کرنا ہو گا تاکہ نئے فیصلوں کی  درست تشریح عوام تک پہنچ سکے, جبکہ سابق صدر ہائی کورٹ بار عرفان وائیں نے خطاب میں کہا کہ ہمیں ایسی کانفرنس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انصاف کی تاخیر جیسے اہم معاملات کو حل کرنا ہو گا ۔
لاء کانفرنس

مزیدخبریں