ہمیں بھی دنیا کی جمہورتیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

Jan 25, 2025

وزیر احمد جوگیزئی

ہندوستان اور پاکستان ایک ہی سال میں ایک ہی مہینے میں آزاد ہوئے،دونوں ممالک کی آزادی  میں ایک دن کا فرق ہے۔آزاد ہوتے ساتھ ہی پاکستان سے متعلق ہندوستان کے سیاست دانوں اور خاص طور پر پنڈٹ جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد کا خیال تھا کہ پاکستان چند دن میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا اور زیادہ چل نہیں پائے گا۔ٹوٹ پھوٹ تو ہوئی،ملک ٹوٹا مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہو گیا،بنگلہ دیش نام کا ملک وجود میں آیا اور آج ہم ان سے برادرانہ تعلقات استوار کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے ہیں۔مغربی پاکستان بھی مختلف علاقوں پر مشتمل تھا اور ان علاقوں میں پنجاب،سرحد،بلوچستان اور سندھ شامل تھے اور اس حوالے سے بھی سوال اٹھائے جاتے تھے کہ کیا ان علاقوں پر مشتمل پاکستان مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد معاشی طور پر زندہ رہ سکے گا؟ یہ سوال بار بار پوچھا جاتا تھا اور اب بھی پوچھا جاتا ہے۔اور شاید اس حوالے سے کوئی ا سٹڈیز بھی ہوئی ہوں،لیکن عام طور پر یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ملک معاشی طو ر پر ایک viable unitبن سکے گا کہ نہیں؟ اور اس ملک کو ایک کامیاب ملک بنانے کے لیے سمجھ دار،ذہین،وڑن کے حامل محنتی اور پر خلوص سیاست دان اور معیشت دان چاہیے تھے،تاکہ ملک ہر طریقے سے ترقی کر سکے اور آگے بڑھ سکے اور دنیا میں اپنا ایک مقام حاصل کرے،اور کسی بھی ملک کی ترقی کا کا آغاز بندر گاہ سے ہو تا ہے،کوئی بھی بندر گاہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے نہایت ہی ضروری ہوتی ہے۔اس ملک کا سارا کا سارا کاروبار اس بندر گاہ کے ذریعے ہی چلایا جاتا ہے اور اس ملک کی تمام تر درآمدات اور برآمدات کا سلسلہ اسی بندر گاہ سے چلتا ہے اور بندر گاہ والے شہر میں ہی صنعتیں لگائی جانی چاہیے اور صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی جانی چاہیے کیونکہ بندر گاہ ہی تجارتی مرکز ہوتی ہے اور صنعتوں کو ایسے شہروں میں خام مال کے حوالے سے آسانیاں ہوتی ہیں مسائل کم ہو تے ہیں۔ملکی ترقی کے لیے ایسے آگے بڑھنا ضروری ہے منصوبہ بندی کرنا ضروری ہوتی ہے اور حکمت عملی کے تحت ہی ملک ترقی کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ہمیں بھی اس حوالے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔بندر گاہ ہونے کی وجہ سے کراچی ہمارا تجارتی اور اقتصادی مرکز تھا اور یہی وجہ تھی کہ کراچی ہمارا دارلخلافہ  تھا اور صنعت اور حرفت کا مرکز بھی لیکن شوم قسمت ایک ڈکٹیٹر آیا اور دور آمریت میں دارلخلافہ  کو کراچی سے تبدیل کرکے اسلام آباد کو کیپیٹل سٹی بنا دیا گیا اور یہ کرنے سے کراچی کی تعمیر اور ترقی اور گروتھ پر نہایت ہی منفی اثرات مرتب ہو ئے۔اگر آج کراچی پاکستان کا ہر طرح سے مرکزی شہر ہو تا تو آج شاید پاکستان کی معیشت کہیں بہتر ہوتی اور ان دگر گوں حالات کا سامنا نہیں ہوتا جیسا کہ آج ہے۔بہر حال آج بھی کراچی پاکستان کے ٹیکس نظام میں سب سے بڑا شراکت دار ہے اور ٹیکس کا بڑا حصہ کراچی شہر مہیا کرتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کراچی کو گرو کرنے دیا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور آج ہماری معاشی ترقی کہیں زیادہ ہوتی۔لیکن جیسا کہ پہلے بھی بات ہوئی کہ چونکہ ہمارے فیصلے عوامی نہیں تھے اور آمر نے بند کمروں میں بیٹھ کر کیے تھے اس لیے یہ فیصلے زیادہ درست ثابت نہیں ہو ئے اور اس کی وجہ سے ہماری گروتھ بدتریج کم ہو تی چلی گئی اور آج ہم مشکل صورتحال میں پھنسے ہو ئے ہیں،مسائل کا انبار زیادہ سے زیادہ ہو تا چلا گیا ہے اور پاکستان آج مسائلستان بن چکا ہے۔ہمیں ان حالات سے نکلنے کے لیے بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری آبادی جس طریقے سے بڑھ رہی ہے،وہ افرا تفری انتشار اور غربت میں شدید اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ان تمام مسائل کا حل نکالنا ہو گا ورنہ بہت ہی دیر ہو تی چلی جائے گی اب بھی وقت ہے،اپنے آپ کو سنبھالنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ طاقت عوام سے ہو اور عوام ہی طاقت کا سر چشمہ ہو،جب تک عوام کی رائے کو فوقیت نہیں دی جاتی ہے اور ان کے فیصلوں کو مانا نہیں جاتا ہے تب تک ہمارے مسائل میں کمی واقع نہیں ہو گی اور مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے چلے جائیں گے۔ہمیں اپنے رویوں اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے جب تک ہم ماضی کی غلطیوں کو تسلیم نہیں کریں گے تب تک ہمارے آگے بڑھنے کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہی رہے گی اور ہم طرح طرح کے مسائل میں مبتلا رہے گے۔ہمیں سوچ و بچار کے ساتھ ترقی کے لیے ایک قومی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے خالص جمہوریت کی بھی ضرورت پڑے گی۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم شخصی بنیادوں پر مسائل کے حل کے عادی ہو چکے ہیں جو کہ ایک نہایت ہی غلط روش ہے۔آج کے الیکشن بہت ہی متنازع ہیں الیکشن پہلے بھی منتازع ہو تے رہے ہیں لیکن اتنے متنازع کبھی نہیں ہو ئے جتنے موجودہ الیکشن ہوگئے ہیں۔اور پھر صاف سی بات ہے کہ اس الیکشن کے نتیجے میں قائم ہو نے والی حکومت پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے،ہمیں ان مسائل سے نکلنے کی ضرورت ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی یکجا ہو کر مطالبہ کریں کہ نئے الیکشن کروائیں جائیں اور یہ ایسے الیکشن ہوں کہ بالکل آزاد اور شفاف الیکشن ہوں پھر جا کر ہی ملک بہتری کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔ایک ایسا الیکشن ہونا چاہیے جس میں کہ کوئی بھی ڈنڈی نہ ماری جائے،کسی سے کریکٹر سرٹیفیکٹ نہ مانگا جائے۔کوئی بھی پاکستانی اگر الیکشن لڑنا چاہے تو لڑے۔ابھی ہمارے سامنے کی بات ہے کہ امریکہ میں الیکشن ہوا ہے،ٹرمپ پر مختلف مقدمات چل رہے تھے اور کئی کیسز میں تو سزا کا بھی امکان تھا لیکن الیکشن اتھارٹی نے ان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی اور وہ الیکشن جیت بھی گئے اور کسی نے سوال نہیں کیا،ہم تو صرف ورق گردانی میں ہی اپنا سارا وقت صرف کر دیتے ہیں۔ ہمیں بھی دنیا کی جمہورتیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔الیکشن ہر صورت میں فیئر اینڈ فری ہونے چاہیے اور نہ ہی اس کے لیے کسی تعلیم کی ضرورت ہونی چاہیے اور نہ ہی کریکٹر سرٹیفیکٹ کی یہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔

مزیدخبریں