بدھ، 2 رجب المرجب 1444ھ، 25 جنوری 2023ئ

اندھیرے کا راج موم بتی کی مانگ بڑھ گئی اور دلچسپ تبصرے
حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں پاکستانی قوم کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہر حال میں ز ندہ دلی کے مظاہرے کرتی ہے۔ یوں پل بھر میں بڑے بڑے صدمے اور حادثات پر بھی ہنستے کھیلتے آگے بڑھنے کی تمنا ان کے دلوں میں جوان رہتی ہے۔ گزشتہ روز جس طرح 15 گھنٹے طویل بجلی کا بریک ڈاﺅن ہوا۔ اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو جگہ جگہ لوٹ مار کے ساتھ پُرتشدد مظاہرے ہوتے۔
ماضی قریب میں امریکہ، افریقہ ، یورپ میں جہاں بھی ایسا ہوا حالات بگڑنے میں دیر نہیں لگی۔ مگر ہمارے ہاں بجلی منقطع ہوتے ہی لوگوں کی حس ظرافت پھڑک اٹھی۔ وہ لگے ایک دوسرے کو دلچسپ پیغامات ارسال کرنے۔ کوئی کہنے لگا لگتا ہے ملک ری سٹارٹ ہو رہا ہے۔ کوئی کہنے لگا بجلی والے سوئچ آن کرنا بھول گئے۔ کسی نے پھبتی کسی کہ آئی ایم ایف نے قرض کی واپسی نہ ہونے پر پاکستان کا میٹر اتار لیا ہے۔ کوئی کہنے لگا ہم دوبارہ پتھر کے دور میں واپس آ گئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے آج پہلی دفعہ گھر میں کینڈل ڈنر کا مزہ آیا۔ الغرض جو جس کے ذہن نارسا میں آیا اس نے وہ پیغام لکھ دیا۔ ایک لطیفہ جو گرچہ پرانا ہے مگر لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
چند برس قبل تک پاکستان میں لوڈشیڈنگ عام تھی کہتے ہیں انڈیا میں ایک سکھ مر گیا یا کہیں پسماندہ علاقے میں جانے لگا تو اس کی بیوی نے رونا دھونا شروع کر دیا کہ ہائے تم وہاں چلے گئے ہو جہاں نہ بجلی ہے، نہ پانی۔ نہ آٹا ہے نہ چینی نہ گیس اس پر قریب بیٹھا سکھ کا بچہ فوراً بول پڑا اماں کیا ابا پاکستان چلا گیاہے۔ تو جناب گزشتہ روز ایسا ہی سماں تھا کہ گھر والے دیر سے آنے والوں کے لیے
بتی بال کے بنیرے اُتے رکھنی آں
گلی بھل نہ جاوے چن میرا
گانے کی پریکٹس کرتے رہے۔ چارسُو اندھیرا راج کرتا نظر آیا۔ یوں موم بتی فروخت کرنے والوں کی چاندی ہو گئی اور انہوں نے 10 روپے والی موم بتی 50 میں فروخت کی۔ جس کی ناتوانی اور جلدی بجھ جانے والی حالت دیکھ کر بلاوجہ دل ہی جلتا رہا۔ دیکھ لیں بجلی کی بندش سے بھی یار لوگوں نے آمدنی بڑھانے کا طریقہ تلاش کر لیا۔ آگے نجانے کیا ہو گا۔ کہیں اب لالٹین والے بھی میدان نہ سنبھال لیں کیونکہ کسی ناگہانی لوڈشیڈنگ میں یہ بھی کارآمد ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گیس کے ہنڈولے بھی نئی سج دھج کے ساتھ بازار کی رونق بڑھا سکتے ہیں یہ دونوں لوگوں کے حافظوں سے محو ہو رہے تھے۔ اب دوبارہ گھروں اور ذہنوں میں جگہ بنا لیں گے۔
٭٭٭٭٭
بجلی کی بندش سے کروڑوں موبائل صارفین شاک میں چلے گئے
15 گھنٹے پورا ملک بجلی سے محروم رہا۔ اس سے کاروبارِ حیات تو متاثر ہونا ہی تھا اربوں کا نقصان بھی ہوا۔ مگر سب سے بڑا نقصان بیچارے موبائل فون استعمال کرنے والوں کا ہوا جن کی بیٹریاں پوری طرح چارج نہیں تھیں۔ وہ تو باقاعدہ رونے لگ گئے کیونکہ ہاتھ میں پکڑے اس طوطے میں ان کروڑوں پاکستانیوں کی جان ہے۔ بہرحال شکر ہے اس طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کچھ دیر تو ان لوگوں کے ہاتھوں کو آنکھوں کو اور جھکی ہوئی گردنوں کو آرام نصیب ہوا۔ مگر اس کے باوجود یہ لوگ مرغ بسمل کی طرح تڑپتے رہے۔ کئی تو دماغی خلجان کا شکار ہو کر بار بار جیب سے موبائل نکال کر اسے یوں تکتے تھے گویا جیب میں پڑے پڑے وہ خودبخود چارج ہو جائے گا۔ صرف موبائل ہی نہیں ٹیلی فون کی لائنیں تک بے جان ہو گئیں۔ یوں لگ رہا تھا گویا زندگی تھم گئی ہے۔ سچ کہیں تو ہر سمت ایک ٹھہراﺅ سا لگ رہا تھا۔ لوگ اِدھر اُدھر یوں دیکھ رہے تھے گویا وہ ایک دوسرے کو پہچان رہے ہوں اور جان رہے ہوں کہ وہ انہی گلیوں اور سڑکوں کے باسی ہیں جنہیں اب وہ دیکھتے ہی نہیں۔ اس حساب سے تو یہ جان پہچان اچھی رہی ۔لوگ ایک دوسرے سے واقف ہونے لگے۔ ورنہ ان کی ساری جان پہچان اسی موبائل کے دوستوں تک ہی رہ گئی تھی۔ کئی فنافی الموبائل نے تو رات کو گھر آ کر اپنے تمام گھر والوں کو عرصے بعد شرف دیدار دیا اور خوشی سے چیخ اُٹھے کہ اچھا تو یہ ہم سب گھر والے ہیں۔ یوں ایک دن کی بجلی کیا گئی۔ پرانے رشتے اور ناطے روشن ہو گئے، اندھیرے میں اپنائیت کے وہ چراغ دل و نگاہ میں جل اٹھے جنہیں ہم کب کا بجھا چکے ہیں۔ لوگوں کی کان سے لگے ہاتھ میں پکڑے طوطے سے جان چھوٹی تو ایک دوسرے سے بات کرنے لگے۔ یوں رنگ اجنبیت کم ہوا انہیں پتہ چلا پہلے بھی زندگی ایسی ہی تھی ، سب ملتے جلتے ہنستے کھیلتے تھے۔ بجلی نہ ہوتی تھی تو بھی لوگ باہر نکل کر ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے تھے گفتگو کرتے تھے۔ اس لیے ہمیں ا س بریک ڈاﺅن کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے جس کی بدولت وہ چہرے دیکھنے کو ملے جنہیں ہم بھول رہے تھے جن کی آواز سُننے کو ہم ترس گئے تھے وہ آواز سننے کو ملی۔
٭٭٭٭
سنگنلز سیف سٹی کیمرے بند ٹریفک جام وارڈنز غائب
اچھی بھلی چلتی پھرتی زندگی یوں تھم جائے گی، اس کا اندازہ گزشتہ روز اس وقت ہوا جب ملک بھر میں بجلی کا طویل ترین بریک ڈاﺅن ہوا۔ گویا زندگی کا پہیہ جو اچھا بھلا رواں دواں تھا جام ہو گیا ہے۔ بجلی سے چلنے والی ہر شے ساکت ہو گئی۔ کارخانے، فیکٹریاں، دکانیں ، مارکیٹیںسُونی ہو گئیں۔ ملک بھر میں اے ٹی ایم مشینوں کی بندش سے رقم نکلوانے والے پاگلوں کی طرح کبھی اس اے ٹی ایم پر کبھی اس اے ٹی ایم پر جا کر مقدر آزماتے نظر آئے۔ آمدورفت کو کنٹرول کرنے والے سنگنلز بڑے شہروں میں لگے سیف سٹی کیمرے تک بند ہونے سے ٹریفک کے نظام میں بُری طرح خلل پڑا۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ ہم تو ٹھہرے سدا کے مست الست۔ جب دیکھا سنگنلز بند ہیں تو آﺅ دیکھا نہ تاﺅ لگے ٹریفک قوانین کی دھجیاں اُڑانے یوں اس زبردستی آگے نکلنے کی دوڑ کی وجہ سے چوراہوں پر ٹریفک بلاک رہی۔ سفر کرنے والے شریف شہری پریشان خوار ہوتے رہے۔ بہت کم ٹریفک وارڈن اپنا جی ہلکان کرتے رہے۔ لوگوں کی منتیں ترلے کرتے رہے کہ اپنی اپنی لین میں رہیں۔ بدنظمی پیدا نہ کریں مگر ان بے چاروں کی کون سنتا سب اپنی من مانی کرتے رہے۔ وارڈنز کی اکثریت اس صورتحال سے لاتعلق رہی وہ سڑک کے کنارے کھڑے گپ شپ لگاتے رہے۔ یوں لگتا تھا وہ شہریوں کی تکلیف سے لطف لے رہے تھے۔
لاہور میں اورنج ٹرین بھی بند رہی۔ ہزاروں مسافروں کا سارا زور ایک بار پھر پبلک ٹرانسپورٹ پر پڑا تو پھر سڑکوں پر گاڑیوں کا اژدھام اُمڈ آیا۔ یوں لگنے لگا کہ لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیہ سے تنگ آ کر سارا شہر باہر نکل آیا ہے اور لوگ شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ الیکٹرک سیڑھیاں اور لفٹس بند ہونے کی وجہ سے کاروباری مراکز میں بھی ویرانی چھائی رہی۔
افغانستان کیلئے سعودی عرب اور او سی آئی کی طرف سے 30 لاکھ ڈالر کا امدادی سامان
افغانستان کی تباہی‘ بدحالی میں سب سے بڑا ہاتھ وہاں کے حکمران اور اس کے علاوہ وار لارڈز ہیں۔ پہلے روس پھر امریکی فوج کی افغانستان میں ہزیمت کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے اور تقسیم کئے گئے اسلحہ نے پورے ملک کو ہتھیاروں کا ڈپو بنا دیا ہے جس کی وجہ سے وہاں خانہ جنگی کا عالم ہے۔ اب افغان طالبان کی آمد سے امید تھی کہ صورتحال بہتر ہوگی مگر اس میں بھی دور دور تک کوئی کامیابی نظر نہیں آرہی۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرکے ملک کی تعمیروترقی اور امن و سلامتی لانے کی بجائے طالبان نے بھی وہی پرانا طاقت کے زور پر سب کو دبانے والا سلسلہ جاری رکھا ہے جس کی وجہ سے افغانستان میں انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا بھر کو تشویش ہے۔ باقی سب کو چھوڑیں‘ خود مسلم ممالک بھی ان کے اس رویئے سے نالاں ہیں۔ ایک طرف پورا ملک سابقہ خانہ جنگی اور جنگی تباہ کاریوں کی وجہ سے کھنڈر بن چکا ہے اوپر سے بے رحم موسمی حالات نے بھی پورے ملک کوجکڑ کر رکھا ہے۔ طالبان کی پالیسیوں نے عالمی سطح پر افغانستان کوعالمی سطح پر یک وتنہا کر دیا۔ ظاہری بات ہے جب آپ کسی کی سنی ان سنی کر دیں گے تو کوئی آپ پر بھی توجہ نہیں دے گا۔ اس وقت افغانستان شدید غذائی بحران اور مالی بحران کا شکار ہے۔ ادویات کی شدید قلت ہے۔ سخت موسم سرما کی وجہ سے لاکھوں افغان بدترین حالات میں تکلیف دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان حالات میں سعودی عرب اور او آئی سی کی طرف سے غذائی اور طبی امداد آرہی ہے۔ وہ بھی تھوڑی معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان اور چند دیگر مسلم ممالک کا یورپی ممالک بھی جو مدد کر رہے ہیں‘ وہ بھی ناکافی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردارکیا ہے کہ اگر طالبان نے طرز حکمرانی نہ بدلا‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم نہ کیں تو وہ عالمی سطح پر یک و تنہا ہوسکتا ہے۔ اس کا بھی طالبان حکومت کوئی نوٹس نہیں لے رہی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی افغانستان کے حالات بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں۔ اس لئے طالبان اپنی سخت گیر پالیسیوں میں نرمی لائیں تاکہ عالمی برادری وہاں امدادی کارروائیاں شروع کر سکے۔
٭٭٭٭٭