ڈیل کی خواہش
ڈائری پر لکھے ایک جملے نے بہت شور وغوغا پیدا کیا ہوا ہے ،یہ جملہ مبینہ طور پر بانی پاکستان سے منسوب کیا گیا ہے اس میں سے صدارتی نظام کی حمائت تلاش کی جا رہی ہے، اس جملے کے عکس کو لے کر بحث پیدا کرنے کی کوشش کو ئی نئی نہیں ہے .ملک جب ،جب آمریت کے دور سے گزر ا،ایسی بحث چھیڑی گئی ،جنرل ضیا دور میں جب آئین معطل تھا اور ایک مولانا صاحب مرحوم جن کا کافی احترام موجود تھا اسلامی دستوری اصلاحات پر کام کے لئے لگا دئے گئے ، انہوں نے ایک رپورٹ لکھ کر حکومت کے حوالے بھی کی تھی،شائد اب بھی ریکارڈ میں ہو گی ،چونکہ نہ اسلام نے آنا تھا اور نہ اصلاحات ہونا تھیں اس لئے رپورٹ کا کچھ آتا پتہ نہ چلا اور کوہ کھاتے میں چلی گئی ۔ انھی ایام میں معاون کے طور بانی پاکستان کے ساتھ کام کے دعوے دار ایک آئینی ماہر نے جو آمریت دور کے ساتھ کام کرنے کابہت ذوق رکھتے تھے اور تادم حیات اسی لائن پر چلے ڈائری کے ورق کوسامنے لایا جس میں قائد سے منسوب کیا گیا ایک جملہ موجود تھا جس سے صدارتی نظام کی حمائت کو برآمد کیا گیا تھا ،اس وقت جمہوری حلقوں اور خاص طور پر قائد کے حقیقی ساتھیوں کی طرف سے گوشمالی کی وجہ سے معاملہ دب گیا مگر اس کا ایک مظہرآئین میں 8ویں ترمیم تھی جس میں صدر کو حکومت برطرف کرنے سمیت اہم اختیارات سونپ دئے گئے ،اس طرح پارلیمانی جمہوریت میں صدارتی نظام کا تڑکہ لگایا گیا ،دوسری بار وہی آئینی ماہر پرویز مشرف کی مدد کو آئے،بعد ازاں چیف ایگزیکٹو کے منصب کی تخلیق اور صدارت سنبھالنے کے معاملات ان کے مشوروں کا نتیجہ تھے ، پھر وہی کہانی دہرائی گئی،طاقت کا جھکاو ترمیم کے ذریعے صدارت کی جانب کیا گیا ،آئینی ماہر تو اللہ تعالی کو پیارے ہو چکے ہیں تاہم ان کے روحانی فرزند بڑی تعداد میں موجود ہیں ،قائد کی پبلک میں جو تقاریر ہوئیں یا ان کے جو انٹرویوز موجود ہیں یا ان کی ساتھ کام کرنے والوں کی کتابیں موجود ہیں ،کہیں سے ایک سطر یا جملہ نہیں ملتا جس میں صدارت نظام کی خواہش ظاہر کی گئی ہو ،اس لئے اس عکس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، میرٹ پر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کہنے میں کو باک نہیں کہ ’’ایک سے ڈیل‘ یا کروڑوں افراد کے نمائندوں سے ڈیل‘یہ اسی کشمکش کا شاخسانہ ہے ،دنیا میں میں جب، جب عالمی طاقتوں کی پراکسی وارز چلی ہیں تو ’’ایک سے ڈیل‘‘حاوی رہی،صدارتی نظام اسی سوچ کازراسافٹ مظہر ہے ، خیال رہے کہ یہ صرف اس ملک کے معاملہ کی بات ہے ،بہت سے ملک ہیں جنہوں نے سوچ بچار کے بعد اپنے معروضی حالات کے باعث صدارتی نطام کو اپنا لیا ،مگر وہاں تو اس کے خلاف بات کر کے پارلیانی نظام کی حمائت میں کوئی آواز نہیں اٹھتی،اگرچہ وہاں بھی آئے روز مسائل سامنے آتے رہتے ہیں اور نہ ان ممالک میں ایسی بحث ہوتی ہے جہاں پارلیمانی سسٹم ہے ،وطن عزیرز میں نرالے انداز ہیں ،خاص طور پر 2007ء کے بعد جب ملک کے آئین میں موجود بگاڑ کو کافی حد تک ختم کر دیا گیا تھا ،جواز نہ ہوتے ہوئے بھی اب ایسا شدت سے ہو رہا ہے ،کہیں نہ کہیں تو آمریت کے شوقین موجود ہیں،آمریت صرف یہ نہیں کہ کوئی کھلم کھلا آ کر بیٹھ جائے،ایسے چار ادوارگذرے ہیں ،30سال سے ذائدمعیادبلکہ یہ کہنا چاہئے کہ آزادی کے بعد کی نصف معیاد آمریت کے تحت رہی ،ان برسوں میں ملک کی جی ڈی پی نے ہر سال کتنی ترقی کی اس کے اعدادوشمار موجود ہیں ،ملک صرف ایک بار50کی دہائی میں مارشل لاء لگنے سے بہت پہلے قریبا ساڑھے دس فی صد کی گروتھ پر گیا،جبکہ اوسط ساڑھے چار فیصد کے ریٹ سے ترقی کرتا رہا ہے،یعنی حکومت کسی بھی طرز کی رہی ترقی کی رفتار ایک جیسی تھی،کھبی بہت اوپر گئے اور کبھی منفی ذون میں داخل ہو گئے ،اس کی وجہ پالیسیاں یا حالات ہوتے ہیں،یعنی اس کا نظام سے کوئی تعلق نہیں ،اسی نظام میں 2018میں 6.1فی صد پر گئے ،اور دوسال پہلے معیشت ترقی کی بجائے سکڑ گئی تھی اور اس سال توقع کی جا رہی ہے کہ یہ یانچ اور چھ فی صد کے درمیان رہے گی ،اس لئے بغیرکسی شک وشبہ کے کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے نظام کا ترقی سے کوئی تعلق نہیں ،ہمارے ہاں آمریت کی وجہ سے جو مسائل بنے اس کو ذکر ہوتا رہتا ہے ،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کہ بہت سے ممالک ہین جہان اامریت تھی مگر ملک نے ترقی کی ،ملک کا مزاج پارلیمانی ہے اور اس کی نقائص کو دور کرنے پر بات کرنا کوئی بری بات نہیں ہے ،خاک نشیں یہ سمجھتا ہے کہ صدارتی نظام کی بحث بار بار چھیڑنے والا وہی مائنڈ سیٹ ہے جو آمریت کے خواب دیکھتا رہتا ہے ،یہ ملک کے اندر موجود ہے اور کچھ بیرونی طاقت ور عناصر بھی ہیں جو بدلے ہوئے ماحول میں آمریت کی حمائت تو بات نہیں کر سکتے مگر بار بار پارلیمانی نظام کی خامیوں کو اچھال کر صدارتی نظام کی بات کرتے ہیں اصل میں آمریت ان کی منزل ہے جہاں عوام اور ان کے نمائندوں کی بکھیڑے میں پڑے بغیر مرضی کے فیصلے مسلط کئے جا سکیںاورایک سے ڈیل ہو سکے ،ملک میں جس طرح کی جغرافیائی تقسیم موجود ہے وہ خود صدارتی نظام کے خلاف دلیل ہے ،ملک کا مسلہ نظام نہیں بلکہ موجود سسٹم کو موثر بنانا ہے ،اس کے لئے پارلمینٹ کے رول اور اس تک دیانت دار اور سوجھ بوجھ کے حامل لوگوں کو پہنچانے اور منتخب کرانے کی ضرورت ہے ،اگر سیاسی جماعتوں کی قیادت جماعتی سیاست کو ملک کے مفاد کی آئینے میں مرتب کر لے تو اچھے لوگوں کو لانا مشکل نہیں ہے ،ملک کے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان کے حل کا عمل بحثیت مجموعی ہونا چاہئے تو وقت کے ساتھ ساتھ قباحتیں ختم ہو ں گی ،باقی امیر المومنین بننے کی خواہش اچھی تو ہو سکتی ہے مگر پہلے اسکی ذمہ داریوں کو اپنے گھر اور خاندان ،دوستوں،ذاتی امور پر لاگو کر لیں پھر ان کو دوسروں پر لاگو کرنے کی خواہش رکھیں ۔