حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
انسان کی زندگی نشیب وفراز ،دھوپ چھائوں ،بہار و خزاں سے عبارت ہے ۔کہیں کسی کے پیدا ہونے کی خوشی ہے ۔تو کہیں زندگی اپنا دم توڑ رہی ہے ۔زندگی کے سفر میں ملنا اور بچھڑنا روزازل سے ہے ۔ انسان اپنی زندگی میں کئی طرح کے تجربات سے گزرتا ہے ۔اپنی گذشتہ خامیوں سے سیکھ کر آئندہ آنے والی زندگی میں کامیابی کا راستہ ہموار کرتا ہے ۔موجودہ صدی کا انسان اپنے ماضی اور اپنے آبائو اجداد کے کارناموں کی داستان گوئی ضرور کرتا ہے اور اُس دور کو سنہرا دور قرار دیتا ہے ۔اُن کی محنت لگن اور کام کے طریقے ،بھائی چارے ، اُن کی سادہ زندگی اور اُس کی مشکلات کا ذکر ضرور کرتا ہے ۔دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا ہے ۔اُن کے نقش قدم پر چلنے کے تما م طریقہ کار پر بحث کرتا اور تفصیل سے بتاتا ہے ۔آج کا انسان خوشی اور آسانی کے لمحات میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ وہ یہ بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتا کہ اُس کی خوشی کسی کے لئے تکلیف کا باعث تو نہیں ہے ۔وہ بعض مرتبہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کے لئے خود کو بھی خطرے میں ڈال لیتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو تکلیف پہنچا لیتا ہے اور ذمہ دار حالات کو ٹھہراتا ہے ۔بعض اوقات اپنی لاعلمی اور غفلت کی وجہ سے جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور اپنے پیاروں کو جدائی اور نہ ختم ہونے والے دُکھ میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ 2005 ء میں آنے والا زلزلہ بھی اپنے پیچھے بہت سی تباہی چھوڑ گیا۔رمضان کریم میں ہونے والا یہ واقعہ بلا شبہ خدا کی طرف سے انسانوں کو وارننگ ہے۔جو کئی انسانی جانوں کی ہلاکت کا باعث بنا۔ قدیم تاریخ ماضی کی طرح پورے کے پورے شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ خدا نے بتا دیا کہ وہ بنانے پر قادر ہے تو مٹانے پر بھی قدرت رکھتا ہے ۔انسان کتنی ہی ترقی کر لے مگر موت سے نہیں بھاگ سکتا۔انسان سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خواب غفلت کا شکار رہتا ہے اور اُس کو اس نیند سے بیدار کرنے کے لئے قدرت اُسے جھنجوڑتی رہتی ہے ۔ اسی طرح 2010 ء میں آنے والا سیلاب بھی بہت تباہی لایا ۔اپنے پیچھے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ۔ انسانوں کو خش وخاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ کئی قیمتی جانیں گئیں اور املاک کو بھی نقصان پہنچا۔انسان وقتی طور پر پریشان بھی ہوتا ہے اور آئندہ کے لئے لائحہ عمل بھی تیار کرتا ہے ۔مگر بعد میںاپنے روز مرہ کے معاملات میں کھو جاتا ہے اور وہ حادثہ اُس کے لئے صرف یاد ماضی بن کر رہ جاتا ہے ۔انسان اپنی گذشتہ غلطیوں کو بھول کر دنیا کی رنگینوں میں کھو جاتا ہے ۔2020 ء کا سال بہت سی تکالیف لے کر آیا ۔جس کے اثرات سے پوری دنیا متاثر ہوئی ۔کرونا نامی وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس ناگہانی آفت سے لاعملی کے باعث اور اس کے علاج کا حل نکالنے تک اس وباء نے لاکھوں کی تعداد میں انسانی زندگیوں کو نگل لیا ۔اموات کی شرح میں خطرناک حد تک تیزی سے اضافہ ہوا۔اس وباء کی وجہ سے انسانوں کو ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ اور ماسک کا استعمال لازم قرار دیا گیا۔اس سے بچائو کے لئے دو بار ویکسین لگوانا ضروری تھا اور ہے ۔اس وبائو کے اثرات کچھ حد تک کم ہی ہوئے تھے اور انسانی زندگی دوبارہ سے اپنے معمولات کی طرف چل پڑی تھی ۔تا ہم کرونا کے یکے بعد دیگرے حملوںنے ملکوں کو معاشی طور پر بھی بہت نقصان پہنچایا۔حال ہی ہونے والی بارش اور پہاڑی علاقہ جات میں ہونے والی برف باری نے عوام کی دلچسپی اور توجہ کا باعث بنی اور لوگ دیوانہ وار برف کا نظارہ دیکھنے اور لطف اندوز ہونے کے لئے سیاحتی مقام مری پہنچ گئے ۔مگر گنجائش سے زیادہ لوگوں کی آمد اور معمول سے زیادہ برف باری نے حالات کو مشکل بنا دیا ۔تمام راستے رش کی وجہ سے بند ہو گئے اور رہی سہی کسر برف باری نے پوری کر دی ۔زیادہ رش اور برف باری کی وجہ سے لوگ ٹریفک جام میں پھانس کر رہ گئے۔مزید برف باری نے تمام ٹریفک کو منجمد کر دیا اور سوائے چند لوگوں کے باقی تمام لوگ اپنی گاڑیوں کے اندر بند ہو کر رہ گئے ۔زیادہ دیر گاڑیوں کے اندر رہنے اور برف کی وجہ سے کئی لوگوں کی اموات واقع ہوئیں ۔مرنے والے سیر وتفریح کی غرض سے آئے تھے ۔مگر یہ سفر اُن کا آخری سفر ثابت ہوا۔کیا اس میں غلطی موسم کی تھی ۔انتظامیہ کی نااہلی ، بد انتظامی اور پیشگی انتظامات سے غفلت یا جنہوں نے گنجائش سے زیادہ لوگوں کو آنے سے روکا نہیں۔یا پھر آنے والوں کی ۔آخر ذمہ دار کون؟