اور پھر ہوا یوں کہ انسانیت دم توڑ گئی

انسانیت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو انسان سے وابستہ رکھتا ہے اور اگر یہ احساس ہی ختم ہو جائے تو معاشرہ اور قومیں تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ دور حاضر میں اپنی خرابیوں اور برائیوں کو نظر انداز کر کے ہر انسان کہہ رہا ہے کہ شاید یہ وقت یہ دور ہی خراب ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں انسانیت اور احساس ختم ہو چکا ہے، دم توڑ تی ہوئی انسانیت کا جنازہ اٹھ رہا ہے، پہلے جب کسی کا قتل ہوتا تھا تو دور تک سناٹا چھا جاتا تھا، دل خون کے آنسو روتا تھا، لیکن آج ہر طرف خون کی نہریں بہہ رہی ہیں کسی کی لاش ندی سے ملتی ہے تو کسی کی گٹر سے، تو کسی کی جنگل سے، کسی کے ہاتھ کٹے کسی کے پیر ،کسی کا سر۔ آج انسان نے اپنے اندر سے انسانیت کو اس طرح نکال کر پھینکا ہے جیسے ایک پودے کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہو، آج انسان صرف اپنے لئے جی رہا ہے۔ اسکی زندگی کا مقصد صرف اپنی ذات ہے، سب کو اپنی کرسی، شہرت، عہدہ اور دولت چاہئے۔ کسی کو کسی کی فکر ہے نہ پرواہ۔ جیسے انہوں نے آب حیات پی رکھا ہو، انہیں مرنا یاد ہی نہیں۔اگر ہم اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے انسانی شکل میں کیسی کیسی عجیب مخلوق سانس لے رہی ہے۔ مخلوق اس لئے کہنا پڑا کہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہے۔ سوال یہ ہے کیا واقعی آج کا انسان اس پیمانے پر پورا اترتا ہے؟ کہتے ہے جب ضمیر ملامت کرنا چھوڑ دے تو سمجھ جائے کہ انسانیت ختم ہو گئی۔ابھی سانحہ مری میں حکومتی غفلت اور لالچی افراد کے پیسوں کی ہوس کی وجہ سے معصوم بچوں23 مردوخواتین کی ہلاکتوں کے افسوناک واقعہ کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ لاہور کا دل کہلانے والی انارکلی بازارمیں دہشت گردی کا افسوناک واقعہ رونما ہوگیا جس میں تادم تحریر 9 سالہ معصوم بچے سمیت تین افراد جاں بحق جبکہ 32مردوخواتین اور بچے زخمی ہوگئے تھے ،دہشتگردی کے اس افسوناک واقعہ کی وجہ سے جہاں لاہور کی فضا سوگوارہوئی وہی دھماکے کے قریب واقع پرائز بانڈ کی دکانوں میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں اور مختلف موبائل فونز کی فوٹیج میں کچھ ایسے شرمناک مناظر بھی آنکھوں کے سامنے آئے جن کو دیکھ کر دل دہل کر رہ گیا ،انارکلی دھماکے میں زخمی سڑک پر تڑپ رہے تھے جن کو ہسپتال منتقل کرنے کی بجائے وہاں پر انسانیت کے جذبے سے عاری کچھ مفاد پرست لوگ پرائز بانڈ کی دکانوں پر لوٹ مار کرنے کیساتھ ساتھ سڑک پر بکھرے پیسے اور پرائزبانڈز سمیٹتے رہے، کچھ نے تو وہاں پر ٹھیلے والے کے بکھرے ناریل اور پرانے کپڑوں کو بھی مال غنیمت سمجھتے ہوئے نہ بخشا، خیال رہے کہ دھماکے کے بعدلٹنے والی پرائز بانڈ کی ایک دکان کا مالک بھی زخمیوں میں شامل تھا جو انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنی جمع پونجی لٹتے ہوئے دیکھتا رہا ، افسوناک بات یہ بھی ہے کہ لوٹ مار کے اس گھنائونے عمل میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔پولیس نے اس واقعہ کا مقدمہ درج کرکے اسکی تفتیش توشروع کردی ہے مگر ابھی تک معاشرے کے یہ ناسور قانون کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ابھی تو چند دن پہلے ہی ہم برفباری کے طوفان میں 23 افراد کی ہلاکت پرمری والوں کی بے حسی کا رونا رو رہے تھے مگر یہاں تو سب کے ضمیر ہی مرے ہوئے ہیں، کس کس کا رونا روئیں یہاں تواندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔یہی نہیں ہم سب ہمیشہ سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ رمضان المبارک، عید یا کوئی بھی خوشی کا تہوار ہو تو ارض پاک میں ناجائز منافع کے حصول کیلئے اشیائے ضروریہ کے نرخ یہ کہتے ہوئے بے تحاشا بڑھا دئیے جاتے ہیں کہ ہم نے بھی تو اسی سیزن میں ہی کمائی کرنی ہے، پس ثابت ہوا کہ ہم بحثیت قوم سب مری والے ہیں بس ذرا برف باری ہونے کی دیر ہے.افسوس صد افسوس کہ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ آج اصل میں انسان کی رگ رگ میں حیوانیت اور بربریت کا خون دوڑتا ہے، وہ جب ظلم کرنے پر آتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ جن پر ہم ظلم کی داستانیں رقم کر رہے ہیں وہ بھی ہماری ہی طرح کے انسان ہیں، جس کے بعد بے اختیار منہ سے نکلتا ہے کہ انسانیت کہاں مر گئی؟ کوئی تو انسان کو انسانیت سے ملا دے،اسی صورتحال پر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جس معاشرے میں سب چلتا ہے پھر وہ معاشرہ مشکل سے ہی چلتا ہے۔ ہمیں اِس دوڑ سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنے آپ کو پہچاننا ہوگا کہ ہم کون ہیں اور ہمیں پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے، جس دن ہم نے اِس مقصد کو سمجھ لیا ہمیں اپنا آپ خود بخود باعزت محسوس ہونا شروع ہو جائے گا۔اِبن بطوطہ کا قول ہے کہ اِنسان ایک ایسا غافل منصوبہ ساز ہے کہ وہ اپنی ساری پلاننگ میں کبھی اپنی موت کو شامل ہی نہیں کرتا ہم میں سے اکثریت یہ سوچ کر جی رہی ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اِس دنیا سے نہیں جانا اور نہ ہم نے اپنے کرموں کا کوئی حساب دینا ہے۔
بہتر ہے کہ نہ ڈالو ستاروں پہ کمندیں۔۔۔انسان کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے۔