چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز تھا

2013ء کا الیکشن تھا مجھے NA-68سرگودھا میں نواز شریف صاحب کے الیکشن کی ذمہ داری دے کر وہاں بھیج دیا جو میرے لیے ایک چیلنج تھا ۔ اللہ کی مہربانی سے میں اس ذمہ داری سے سرخرو ہوا اور نواز شریف کے لاہور والے انتخابی حلقے سے زیادہ ووٹ ہی نہیں لایا بلکہ 2013ء کی الیکشن کمپین کا سب سے بڑا جلسہ بھی کروایا۔ میرے آبائی حلقے رائیونڈ سے شہباز شریف صاحب نے الیکشن لڑا اور بعد ازاں وہ سیٹ خالی کر دی اب وہاں پر ضمنی الیکشن ہو نا تھا۔ وہ میرا انتخابی حلقہ تھا میں وہاں سے دو مرتبہ الیکشن جیت چکا تھا مگر ووٹ کو عزت دینے والوں نے وہ سیٹ ایک نام نہاد لوٹے کو دے دی ۔ کیوں کہ اسکی خدمات اس حوالے بھی زیادہ تھیں کے اسکے بھائی نے میاں شریف صاحب کے جنازے سے لے کر میاں شہباز شریف کے دورانِ جلاوطنی براہ راست خطاب کو ہر صورت رکوانے کی کوشش کی اس کے عوض اسے ایس ایس پی لاہور اور بعد میں سی سی پی او لاہور لگایا اور ان کے بھائی کو ایم پی اے بنا دیا ۔تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ یہاں سیاسی پارٹیوں کے لیڈرنہیں ہیں بلکہ کچھ لوگوں کی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ جو چاہیں کریں انہیں کوئی پوچھ نہیں سکتا بلکہ ہر غلط فیصلے پر واہ واہ کرنے والے موجود رہتے ہیں۔ اب تو پاکستان کا مقدر اور بھی سنور جائے گا اب باقاعدہ قبضہ گروپوں نے سیاسی جماعتیں بنانا شروع کر دی ہیں۔ ہمارے جیسے لوگ جنہیں پارلیمانی پارٹیز سمجھتے ہیں دراصل وہ لمیٹڈ کمپنیز ہیں۔ یہ ایلیٹ کا پارلیمانی نظام ہے یہاں غریب عوام صرف آوے ای آوے اور کبھی جاوے ای جاوے کے نعرے لگانے کیلئے ہے جنھیں صرف دوران الیکشن تھوڑی سی پذیرائی ملتی ہے اور وہ بیچارے بعد میں منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ پاکستان کا جمہوری نظام اشرافیہ اور مافیاز کے قبضے میں ہے ۔ جسے وہ اپنے خاندانوں کی فلاح کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے انہی نام نہاد سیاستدانوں کی اقربا پروری کی غلط روایات نے ہر شعبے کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں آج ہر چیز برائے فروخت ہے ہمارے سرکاری اداروں پر آج ہر شخص انگلی اٹھا رہا ہے آج ایسے لگتا ہے کہ یہ صرف مافیاز کا پاکستان بن چکا ہے نظام کو اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ اگر یہاں مائوزے تنگ کو بھی لے آئیں تو وہ بھی پاگل ہو جائے۔ہم بہت تیزی سے جنگل کی طرف جا رہے ہیں جہاں ہر طاقتور چیز کمزور کو کھا جائے گی۔ اب ہر گز آخری موقع ہے کہ ذمہ داران چمن اس نظام کو بدلیں آج ہمارے جوڈیشل سسٹم سے لیکر ایگزیکٹو سسٹم کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ مگر افسوس ایسا کون ہوگا جو دنیا کے ہر ملک سے ہر سیاستدان اور ہر حکومت سے جڑے سرکاری اور غیر سرکاری لوگوں کی جائیدادوں کی فہرست پاکستانی قوم کو دے سکے۔ میں ایک دن شہباز شریف صاحب کے داماد کے ساتھ اپنے ایک دیرینہ دوست کمال ناصر صاحب جو مجھے اپنے بھائیوں کی طرح عزیز ہے اور انتہائی با کردار خاندانی کاروباری شخصیت ہیں کے پاس تھا جہاں پر کچھ سرکاری لوگوں کے بارے گفت و شنید ہوئی جو شہباز شریف کے قریب تھے ۔ ان لوگوں نے پاکستان کے اربوں روپے جس طرح لوٹے ہیں اللہ کی پناہ ہے۔ مگر آج وہ بہت سے لوگ معتبر ہیں اللہ کا اپنا نظام ہے ایک دن ان کا یوم حساب آئے گا۔ سنا ہے کسی کو قاضی نے سزا دی کہ اسے سنگسار کر دیا جائے جب لوگ اسے پتھر مارنے لگے تو اس نے کہا کہ ٹھہر جائو مجھے پتھر وہ مارے جس نے یہ جرم نہ کیا ہو۔ سب نے پتھر پھینکے اور واپس چلے گئے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ کوئی تو آئے گا جس نے یہ جرم نہ کیا ہو اور وہ سب کو بے نقاب کرے گا۔ پاکستان اپنی منزل تک پہنچے گا اور اقبال اور قائد کا پاکستان بن کے رہے گا۔ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہوں اور میئو راجپوت قوم سے تعلق ہے تاریخ اٹھا کر دیکھیں مئیو قوم نے انگریز کی بالادستی کو کوبھی قبول نہیں کیا تھا۔ وقت گزر جاتا ہے مگر ہر لمحہ تاریخ بنتا جا رہا ہے پاکستان کی لوٹ مار اور کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ تاریخ لکھنے والا ان کے حمایتیوں کے نام بھی ضرور لکھے گا۔ بچپن میں ہم اخروٹ اور پِل گولیوں سے کھیلتے تھے کھیل کے دوران پیٹ نکالے ایک بدمعاش بچہ آتا اور آکے کہتا تھا "اوہے مینوں وی کھڈائو نئیں تے " آج سب سے زیادہ ذمہ داری پاکستانی قوم پر ہے اگر ہم اپنے گھروں میں خاموشی سے بیٹھے رہے اور "مٹھے چول" کھا کے آوے ای آوے کے نعرے لگاتے رہے تو پاکستان اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہر گھر کا ذمہ دار اپنی ذمہ داری نبھائے اپنے آپ اور اپنے گھر کو ٹھیک کرے۔ میری کڑوی باتوں کا کوئی برا نہ منائے بلکہ اسے تنقید برائے اصلاح سمجھے۔ پاکستان میں اب تبدیلی آ کر رہے گی اور انشاء اللہ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست بنے گا اور نظام مصطفی ﷺ جس کیلئے پاکستان بنا تھا نافذ ہوکر رہے گا۔ انشااللہ۔مجھے نام نہاد سیاستدانوں کو کہنے دیں:۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوانہ تھے