افوا ہوں کا گرم بازار اور حقیقتوں کا زہر

اسد عمر نے کہا ہے کہ نواز شریف کو باہر بھیجنے کا فیصلہ سو فیصد عمران خان کا تھا۔ تعجب ہے کہ اب ہر روزعمران خان یہ کہتے نہیں تھکتے کہ نواز شریف ڈر کر واپس نہیں آ رہے۔ ن لیگ جو نہی کہتی ہے کہ نواز شریف آئندہ چند دنوں میں پاکستان آ رہے ہیں تو عمران خان کے چہرے پر ہوا ئیاں اڑنے لگتی ہیں۔ وزیر اعظم اور وزراء جو مرضی کہیں، عوام بھانپ چکی ہے کہ نواز شریف کی واپسی کا وا ضح مطلب عمرا ن خان کی واپسی ہے۔ عمران خان خود دل سے چا ہتے تھے کہ نواز شریف سے چھٹکارہ حا صل کریں کیو نکہ تمامتر الزا مات کے با وجود یہ ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف کا سب سے بڑا ووٹ بنک ہے۔ لوگ آج بھی نواز شریف کی مالا جپتے ہیں۔ ملک میں نواز شریف کے چاہنے والے کئی گنا زیادہ ہیں۔ لیڈر وہ ہو تا ہے جس کے پاس وژن ہو تا ہے۔ لیڈر وہ ہو تا ہے قوم کا غمخوار ہو تا ہے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو ملک و قوم کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ لیڈر وہ ہو تا ہے جو دلوں پہ راج کرتا ہے۔ لیڈر تو ملائیشیا کے مہا تیر محمد ہیں۔ لیڈر تو چینی صدر ژن شی ینگ ہیں۔ روسی صدر ولا دمیر پیو ٹن ہیں۔ امریکہ کے رچرڈ نکسن، کینیڈی، باراک اوبامہ ہیں۔ جرمنی کی انجیلا مرکل اور بنگلہ دیش کی حسینہ وا جد ہیں۔ برطا نیہ کی ما رگریٹ تھیچر، ٹو نی بلئیر، ڈیوڈ کیمرون بہترین وزیر اعظم رہے ہیں۔ حسینہ وا جد اور اندرا گا ندھی ہمارے لیے اچھی نہیں رہیں لیکن اپنے ملک کی بہترین لیڈر اور وزیر اعظم رہی ہیں۔ حسینہ وا جد نے تو دنیا کے پسماندہ اور غریب ترین ملک کی معیشت کو اتنا قا ِبل فخر بنا دیا ہے کہ آج بنگلہ دیش کی معیشت اور معا شرت زبان سے بو لتی ہے۔ حسینہ وا جد نے ایک کمزور، ناکارہ، بے سہارا ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے۔ آج انکا ٹکا ہمارے دو ٹکوں کے برابر ہے۔ بھارت کی کرنسی ہم سے دوگنا، ایران کی ڈھائی گنا، بنگلہ دیش کی ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ یہ تینوں ملک نہ تو بھیک مانگتے ہیں نہ امدادیں لیتے ہیں اور نہ آئی ایم ایف سے قرضے کھاتے ہیں۔ یہ ہو تا ہے لیڈر کا وژن اور ملک و قوم سے محبت۔ ہمارے ہاں حکمران اپو زیشن کو گا لیاں دیتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں اور نا اہلیوں کا ملبہ مخا لفین پر ڈا لتے ہیں۔ اپوزیشن پر الزامات لگا تے ہیں اور اپنی ہر حماقت، نا لائقی، ناکامی کو چھپانے کیلئے سا بقہ حکومتوں، اپوزیشن اور عوام پر ڈا لتے ہیں۔ جھوٹے بیانات اور غلط اعداد و شمار دیتے ہیں۔ آرڈینینس کسی بھی حکومت کا بد ترین حربہ ہو تا ہے۔ قرضے اس بات کی علامت ہو تے ہیں کہ حکومت نکمی، نا اہل اور عیاش ہے جو ملک کے غریب عوام کا خون نچوڑ کر کھربوں روپے کا ٹیکس وصول کرتی ہے۔ اُسکے با وجود بھی حکومت چلانے سے عا جز ہے۔ جب ٹیکس ضرورت سے زیادہ لگا ئے جانے لگیں تو سمجھ جانا چا ہیے کہ حکومت چور ہے کیو نکہ اتنے ٹیکسوں کے بعد بھی کو ئی ترقیاتی کام نہ ہوں۔ ہسپتال سکول کالج دفا تر پارک نہ بنا ئیں جائیں تو یہ حکومت کی ناکامی کا منہ بو لتا ثبوت ہو تا ہے۔ اگر کو ئی حکومت اپنی عوام کو سوشل سکیورٹی تو کیا، روزگار بھی نہ دے سکے تو اُس سے زیادہ بد ترین حکومت کیا ہو گی۔ ہماری حکومت جتنے مرضی سبز باغ دکھا ئے۔ ایک کروڑ نوکریوں، پچا س لاکھ گھروں، معیشت کے جھوٹے اعداد و شمار اور خو شحالی کے خواب دکھائے مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان پیچھے جا رہا ہے۔ ہر شعبہء حیات نو حہ کناں ہے ۔ ہر طرف ایک ویرانی اور نحوست ہے۔ ہر شخض مضطرب ہے۔ ہر ادا رہ رُو رہا ہے۔ ہر سمت دُہا ئیاں ہیں۔ ہر طرف غربت کی آہ و بکا ہے جس سے پو چھ لیں بیمار ہے کیونکہ ہماری فضائوں اور ہوائوں میں آلودگی کی انتہا ہے ۔ جو حکومت عوام کو چار سال میں صا ف پانی نہیں دے سکی۔ صرف مہنگائی، ٹیکس اور ٹینشن دے رہی ہے۔ اُس حکومت کے بارے میں رات دن افوا ہوں کا بازار گرم نہیں ہو گا ۔ جب حکومت را شن نہ دے سکے تو بھاشن پر چلتی ہے۔ وزیر اعظم اور تما م وزرا ء گزشتہ چار سال سے پریس کانفرنسیں اور ٹی وی پر خطا ب کا شوق پو را کر رہے ہیں۔ ہر روز آٹھ دس وزرا ء اور ترجمان پریس کانفرنسیں مینا بازار کی طرح سجا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ سوائے الزا مات، گا لی گلوچ، مخول پن اور جھوٹ کے طُومار با ندھنے کے علاوہ اپنی کو ئی کارکردگی پیش کرنے سے قا صر رہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے ٹیلی فونک سوال و جواب کے اس سیشن میں کبھی کو ئی سنجیدہ جواب نہیں دیا۔ کبھی اپنی کارکردگی نہیں بتا سکے۔ دو تین گھنٹے کے اِس سوال و جواب میں زیا دہ تر اپنی تعریفیں ہو تی ہیں کہ یہ میں ہوں اور میں وہ ہوں۔ عوام یہ سُن سُن کر عا جز آ چکی ہے کہ عمران خان نے ورلڈ کپ جیتا ہے۔ آپ نے اکیلے ورلڈ کپ نہیں جیتا۔بے شمار ممالک اور اُنکے کپتان ورلڈ کپ جیت چکے ہیں مگر انہوں نے وا ویلا نہیں مچا یا۔ چارسال سے آپ حکومت میں ہیں مگر نہ صاف پانی دیا نہ روزگار دیا۔ نہ صاف ماحول دیا، نہ بجلی گیس پٹرول تیل گھی آٹا چینی سستا کیا بلکہ اُن کی قیمتیں کئی گنا زیادہ کر کے عوام کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔ لوگ بنیادی چیزوں کیلئے ترس رہے ہیں۔ جرا ئم کی شرح بیس گنا بڑھ گئی ہے۔ امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے۔ لوگ اُس وقت کو کُوس رہے ہیں جب انہوں نے تبدیلی کی خوا ہش میں آپکو ووٹ دیا۔ آپ نے ریاستِ مدینہ نہیں، ایتھوپیائی ریاست قا ئم کر کے ہر آدمی کو کنگال اور فقیر بنا دیا۔