کیا پاکستان کے لیے صدارتی نظام بہتر ہے؟

وطن عزیز میں جب بھی کبھی وزیراعظم کی کرسیٔ اقتدار کو اپوزیشن نے جھٹکے دینے شروع کیے تو ہمیشہ ایک بوتل میں جن کی طرح صدارتی نظام کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ویسے یوں تو دیکھا جائے تو دنیا کے کامیاب اور ترقی یافتہ ممالک میں صدراتی نظام ہی رائج ہے۔ دراصل پارلیمانی نظام 1973ء کے آئین کی روح ہے مگر یہ نظام صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب آپکے ملک میں شرح خواندگی سو فیصد ہو، جیسا کہ برطانیہ، کینیڈااورآسٹریلیا وغیرہ ۔ یوں بھارت میں بھی پارلیمانی نظام دنیا کی سب بڑی جمہوریت کہلاتا ہے مگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صدارتی نظا م ہی کامیاب ہے ۔ مثال کے طور پر فرانس ،امریکہ ، چین ،روس اور جرمن جہاں پر صدر کو چانسلر کہا جاتا ہے۔ صدارتی نظام کی خوبی یہ ہے کہ یہ دو جماعتی نظام کو لیڈ کرتا ہے اور کثیر الاجماعتی جیسا کہ فرانس وغیرہ وہاں بھی یہ نظام کامیابی سے رواں دواں ہے ۔ میں نے یورپ ،افریقہ ،ایشیا اور جنوبی امریکہ کے ممالک میں رائج نظام کو دیکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان ممالک میں نہ تو پارلیمانی نظام کامیاب اور نہ صدارتی ۔ مسلمان ممالک میں ان کی روایات اور کلچر ل کے مطابق صرف خلافت ،بادشاہت کا نظام ہی چل سکتا ہے۔ آپ دنیا کے ساٹھ سے زائد اسلامی ممالک میں کسی ایک جگہ بھی پارلیمانی نظام یا صدارتی نظام کو کامیاب قرار نہیں سکتے کیونکہ بحیثیت مسلمان قوم ہماری روایات جمہوری نظام سے مطابقت نہیں رکھتیں، اسی لیے پاکستان میں پارلیمانی نظام یا صدارتی نظام دونوں ہی ناقابل عمل ہیں۔ میں نے آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے ’’نوائے وقت‘‘ میں اپنے ایک کالم میں صدارتی نظام کے حق میں ایک آرٹیکل لکھا تو مجھے اس وقت کے صاحبِ اقتدار نے ملاقات کیلئے بلایا اور کہا کہ اگر کچھ اور کالم نگار اور دانشور اس صدارتی نظام کے حق میں آواز بلند کریں تو ایسا نظام پاکستان میں سرخ رو ہو سکتا ہے۔لیکن بعدازاں میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے پنجاب کی زمین میں چیری اورسیب جیسے باغات لگانے کی خواہش یا پھر آم اور تربوز کی فصل کو سوئٹرزلینڈکی سرزمین پر اُگانا۔ ایک عرصے سے میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ہاں دو موضوعات پر وقفے وقفے سے پُرزور اور پُرجوش طریقے سے بحث ہوتی ہے۔ وقفوں کا کئی دہائیوں کا یہ تسلسل کبھی ٹوٹا نہیں۔ ایک تو قومی حکومت کے قیام کا واویلا ہوتا ہے دوسرے صدارتی نظام کی بات کی جاتی ہے۔ قومی حکومت کی باتیں ایسی ہوتی ہیں لگتا ہے کہ کل ہی اس کا نفاذ ہو جائیگا مگر اس حکومت کی کبھی نوبت نہیں آئی۔ قومی حکومت ان لوگوں کیلئے مرغوب موضوع اور سود مند ہے جو انتخابی نظام کے ذریعے اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ صدارتی نظام کا شوشہ بھی ایک تواتر سے کچھ مدت کے بعد چھوڑا جاتا ہے۔ قومی حکومت اور صدارتی نظام کی بحث ان مواقعوں پر شروع کی جاتی ہے جب میڈیا کے پاس موضوعات کی کمی ہوتی ہے یا پھر ان مواقع پر جب حکومت بحرانوں میں گھِری ہوتی ہے اور مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے ایسے شوشے چھوڑ دیئے جاتے ہیں اور پھر ہمارے دانشوروں کو ان موضوعات پر بحث کیلئے اللہ موقع دے۔ انکے منہ سے جھاگ جوش جذبات میں بہہ رہی ہوتی ہے۔ اپنے کہے کو حرفِ آخر قرار دیتے ہیں۔ مسندہے مرا فرمایا ہوا۔ چند روز میں سب کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں آہستہ آہستہ اس حوالے سے بحثیں دم توڑ جاتی ہیں۔ اس وقت تک جس نے تیلی لگائی ہوتی ہے اس نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہوتا ہے۔ آج کل صدارتی نظام کے نفاذ کی بحث پھر زوروں پر ہے۔ ہمارے سیاسی اکابرین اور نوآموز میڈیا پرسنز بتی کے پیچھے لگے ہوئے سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ہمارے ہاں پارلیمانی نظامِ حکومت ہے۔ دنیا کا بہترین نظام ہے۔ مگر ان ممالک کیلئے جہاں جمہوری کلچر پنپ کر مستحکم ہو چکا ہے۔ لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ جمہوری اقدار کا پاس رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں پارلیمانی نظام رائج تو ہے مگر کبھی کامیاب نہیں رہا۔ آج تک ایک بھی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ کسی پر کوئی افتاد پڑی کسی پر کوئی اور کسی کو مخالفین نے ٹانگ کھینچ کر گرا دیا۔ اس کا گلہ کرنیوالے آج عمران کو اقتدار سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔ مغربی ممالک میں دو سال بعد بھی حکومت بدل جاتی ہے۔ وزیراعظم نیا آ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جو وزیراعظم بنا وہ تاحیات کرسی سے چمٹا رہنا چاہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انکے اعمال اور کمال کی وجہ سے چند ماہ میں ہی ان کو گھر جانا پڑ گیا۔پاکستان میں صدارتی نظام کبھی نہیں رہا۔ ایوب خان ،یحییٰ خان، ضیاء الحق اور مشرف صدر ضرور رہے اور یہ لوگ 33سال اقتدار میں رہے اور صدر رہے مگر وہ نظام صدارتی نہیں آمرانہ تھا، جرنیلی تھا جس کے انتخاب میں عوام کا عمل دخل نہیں تھا۔ سردست اس بحث میں نہیں پڑتے کہ جرنیلی نظام کتنا کامیاب اور ناکام رہا۔ دنیا میں رائج صدارتی نظام کو دیکھا جائے تو یہ ہمارے لیے پارلیمانی نظام سے زیادہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے مگر اسکے نفاذ کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آ رہے ۔