’گرگ آشتی‘

آج کل صدارتی نظام اور مارچ ‘ اپریل میں ’’تبدیلی کی تبدیلی‘‘ کی بات کی جارہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بلکہ مجھے لگتا ہے کہ سیاست کا تو سینہ ہی نہیں ہوتا۔نظام حکومت کی ناکامی کا نوحہ ستر سال سے سنااور سنایا جارہا ہے بس کبھی لے آہستہ ہو جاتی ہے تو کبھی تیز اونچے سروں میں ۔معاملہ یہ ہے کہ نظام کوئی سا بھی برا نہیں ہوتا۔ امریکا ،فرانس میں صدارتی نظام ہے تو برطانیہ وغیرہ میں پارلیمانی ۔جرمنی سمیت بعض ممالک میں متناسب نمائندگی کا نظام بھی چل رہا ہے۔اپنی اپنی جگہ یہ سب نظام لوگوں کے مسائل حل کررہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہمیں نہ ڈکٹیٹر شپ میں آرام آیا اور نہ پارلیمانی جمہوریت میں چین؟
صاحبانِ نظام اچھے یا برے نہیں ہوا کرتے بلکہ ان پر عمل درآمد کرنے والے فرد یا افراد کامیاب یا نالائق ہوا کرتے ہیں۔ہمارا تو قصہ اس سے سوا ہے کہ نالائقی کو بددیانتی اور بدنیتی کا تڑکا لگا ہوا ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ ہم نظام نامی کسی چڑیا کے بارے کچھ نہیں جانتے بلکہ جس راہ پر مال ملے بگٹٹ بھاگ پڑتے ہیں۔ میرا گمان ہے کہ ہم ہر دور میں گرگ آشتی کھیلتے رہے ہیں۔محمد حسین آزاد نے کہیں لکھا تھا کہ ایران میں شدید سردی میں جب ہر طرح کی زندگی مقید ہوجاتی ہے‘ خوراک کی تلاش بھیڑیوں کے لیے اہم مسئلہ قرار پاتی ہے۔ ایسے میں جب کوئی ذی روح چلتا پھرتا نظر نہیں آتا گوشت کا حصول بھیڑیوں کے لیے جوئے شیر لانے سے اگلی منزل قرار پاتی ہے۔ یہ بھیڑئیے ایک دائرے میں جمع ہو جاتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں۔ بظاہر تو یہ سب کسی شکار کے انتظار میں اکٹھے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ایک دوسرے پر بھی نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
بھوک‘ پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال یہ مخلوق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ سب ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیٹھے رہتے ہیں۔ ذرا کسی کو نیند آئی یا اس نے آنکھ جھپکی اور چشم زون میں تمام بھیڑئیے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور منٹوں میں تکہ بوٹی کر دیتے ہیں۔اہل ایران اس عمل کو ’’گرگ آشتی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس فارسی ضرب المثل کا مطلب ہے منافقانہ صلح‘ وہ صلح جو دشمن کو دھوکا دینے کیلئے بظاہر کرلی جائے۔
یہ جمہوریت نواز جمہورئیے‘ یہ صدارتی نظام کے سپورٹر اور مارشل لاء کے حمایتی بظاہر ہمیں الگ الگ لگتے ہیں مگر ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس بھی دل نہیں ہے۔ سب کے سب اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل کے دفتر کے دفتر لئے پھرتے ہیں مگر حرام ہے جو کسی نے عوام کی مصیبتوں کے بارے میں کبھی کچھ کیا ہو!
چوہتر سالوں میں امیر‘ امیرترین ہوا‘ بھلے وہ جہانگیر ہو یا نہ ہو اور غریب‘ غریب تر۔ آٹے‘ دال ‘ چاول ‘ چینی کے نرخ تو نیچے آنے سے رہے‘ غریب ضروریات زندگی کے حصول کی دوڑ میں ان کے پیچھے ’’اوپر‘‘ پہنچ جاتا ہے۔
صدارتی نظام کا شوشہ درحقیقت ’’گرگ آشتی‘‘ کے لیے جمع بھیڑیوں کے دائرہ سے توجہ ہٹانے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔ آپ دستور پاکستان اٹھا کر دیکھ لیں شروع میں ہی لکھا ہوا ہے کہ پاکستان میں وفاقی پارلیمانی نظام قائم کیا جائیگا۔ اس نظام کا فیصلہ 73ء کی دستورساز اسمبلی کے ہاتھوں تقریباً متفقہ ہوا تھا۔ یہ درست ہے کہ انتخابات قانون ساز اسمبلی کے لیے ہوئے تھے لیکن ملک تازہ تازہ دولخت ہوا تھا اور خصوصی حالات تھے جن کے تحت قانون ساز اسمبلی کو دستور تیار کرنے کا اختیار دیا گیا۔ وگرنہ طریق ہے کہ اگر آپ نیا نظام یا دستور لانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگوں کو بتائو اور اسی بنیاد پر وہ ووٹ کریں کہ انتخابات میں منتخب ہونے والے نیا نظام بنائیں گے‘ یہ دستور ساز اسمبلی کہلائے گی۔ عام آدمی ‘ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں یا آزاد سمجھدار امیدواروں میں سے جن کا بھی تعین کریں گے وہ یہ طے کریں گے کہ مستقبل میں ملک کیسے چلایا جائے گا۔ وہ صدارتی طے کریں یا خلافت نافذ کریں الحمداللہ مگر کسی قانون سازاسمبلی کے پاس اصول اور منطق کے تحت وہ اختیار نہیں کہ نظام حکومت تبدیل کرسکے۔ موجودہ پارلیمان یا کوئی بھی آنے والی پارلیمان جو اس دستور کے تحت قائم ہوگی وہ اس آئین کی بنیاد تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ وہ نئے قوانین بنانے یا پرانے قوانین میں تبدیلی کا اختیار تو رکھتی ہے لیکن نظام جیسے بنیادی پتھر کو تبدیل نہیں کرسکتی کیونکہ وہ اسی دستور سے وہ طاقت لے رہی ہے اور اگر اس کا مرکز و ماخذ تبدیل ہو جائے گا تو طاقت اس کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔اچھا اگر یہ بات ہے تو بھلا یہ بے وقت کی راگنی الاپنے کی کیا ضرورت ہے؟
معاملہ یہ ہے کہ یہ بڑے لوگوں کے بڑے اختیارات کی بات ہے۔ سب کے سب ایک منافقانہ صلح کے ساتھ ایک دوسرے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔اچھا آپ میں سے کتنے لوگوں کو تمثیل یا تجریدی آرٹ سے دلچسپی ہے؟دراصل یہ وہ میڈیم ہیں جس میں بظاہر آپ کہہ کچھ رہے ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ دو بھیڑئیے تو بالکل ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں‘ تیسرا بھیڑیا کہیں افغانستان میں ہے جبکہ چوتھا کہیں دور دراز سمندروں سے آگے آباد ہے۔ تیسرے بھیڑئیے نے یہ معاملہ شروع کیا جب اس نے پہلے بھیڑئیے کو بتایا کہ دوسرا بھیڑیا اور چوتھا بھیڑیا تمہاری اونگھ کے منتظر ہیں۔ دوسرے بھیڑئیے کو بھی علم ہے کہ پہلے بھیڑئیے کو یہ پتہ چل گیا ہے اسی لیے سب ایک دوسرے پر نگاہیں جمائے پلک جھپکنے کے منتظر ہیں۔سب کے سب اپنے قبیلوں میں مشاورت کیے ہوئے ہیں۔ لیکن خبر یہ ہے کہ سب زبردستی کی شادی میں بندھے ہوئے ہیں اس لیے امید واثق ہے کہ کچھ بڑا نہیں ہوگا اور سب اپنی اپنی پرانی تنخواہ پر کام کریں گے اور اگر مئی آدھے سے زیادہ گزر گیا تو سمجھئیے برف باری تمام ہوئی سب دائرہ توڑ کراپنے اپنے شکار کی تلاش میں نکل جائیں گے کہ برابری پر ختم ہوا مقابلہ بھی سب کی جیت ہوا کرتا ہے۔
لیکن یاد رکھیئے کہ بھیڑئیے وقتی طور پر’’گرگ آشتی‘‘ کے اس عمل سے نکل جائیں گے‘ ان کے قبیلے نہیں۔ سب اگلی برف باری کا‘ نئے موسم سرما کا انتظار کرینگے کہ سارے حساب اگلی مرتبہ سود سمیت برابر کیے جائینگے۔ رہے ہم تو ‘ ہم ہمیشہ سے نڈھالی اور بدحالی میں سب سے پہلے آنکھ موند لیتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں تکہ بوٹی بننا ہمارا مقدر ٹھہرتا ہے۔ باقی تمام بھیڑئیے اپنا اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ ہم ہمیشہ سے یہ کھیل ہارتے رہے ہیں اور ہارتے رہیں گے۔ ہمیں کبھی معافی نہیں ملتی کہ بھیڑئیے اپنی خصلت کبھی نہیں بدلتے!