کتاب کلچر کے لیے آزمائش
میری کتاب ’ایک پیج پر‘ کی تقریب رونمائی کے دوران زیادہ تر کتاب کلچر پر بحث ہوئی ،گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی لکھی ہوئی تقریر سے ہٹ کر اس موضوع پر بہت زیادہ باتیں کیں۔لیکن ان سے پہلے مقرر جنرل غلام مصطفی نے کہا کہ میرے گھر میں میرے شعور کی عمر سے نوائے وقت آرہا ہے اور میں روزانہ اسکی ایک ایک سطر پڑھنے کا عادی ہوں،اخبار کے دیگر کالموں نے ساتھ ساتھ میں اسداللہ غالب کے کالم بھی باقاعدگی سے پڑھتا ہوں مگر انہوں نے انہی کالموں پر مشتمل کتاب شائع کی ہے تو میں نے اپنا فرض سمجھا ہے کہ اسے دوبارہ سے پڑھوں ،مگر افسوس کی بات ہے کہ عام لوگ کتاب کلچر سے دور ہورہے ہیں۔ کتب بینی کا دائرہ محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔اسکے باوجود میرا ماننا ہے کہ کتابیں لکھی بھی جانی چائیں اور چھاپی بھی جانی چاہئیں ۔ کتاب لکھنے اور چھاپنے والے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی تو اسکی حوصلہ شکنی بھی نہیں ہونی چاہئے۔اسد اللہ غالب کی ہمت ہے کہ انہوں نے اپنی بینائی ختم ہوجانے کے باوجود کالم لکھنے اور کتاب مرتب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔میں دل سے ان کو داد دیتا ہوں اور میری دعا ہے کہ انکی یہ کتاب وسیع پیمانے پر پڑھی جائے اگر یہ کتاب کسی کی رائے بدلنے میں کامیاب ہوجائے تو مصنف کو اس پر داد ملنی چاہئے ۔کتاب کے متن سے کسی کو اختلاف بھی ہو تو اسے دوسرا نقطہ نظر اپنے پیش نظر ضرور رکھنا چاہئے۔شاید کسی وقت وہ اپنے موقف کی اصلاح کرلے ۔گورنر پنجاب نے اسی تھیم کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے مذہب کی بنیادی کتاب قرآن ہے ، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں اس کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں ۔ایک زمانہ تھا جب بچے مسجد سے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سکول میں داخل ہوتے تھے تو انہیں اپنی درسی کتابیں پڑھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی لیکن اب ہم تین سال کے بچے کو پری نرسری میں ڈال دیتے ہیں جس کے بعد قرآن پڑھنے کا اسے موقع ہی نہیں ملتا ۔اسکی کمر پر کتابوں کا بھاری بستہ لاد دیا جاتا ہے کہ وہ کتاب سے بیزار ہوجاتا ہے اور محض رٹا لگانے تک محدود رہتا ہے۔ ہمیں اپنے قومی رویوں میں تبدیلی کرنا ہوگی ۔قرآن کی تعلیم ہر شخص پر فرض ہے ،درسی اور نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ تاریخ ،سوانح عمری ،شعر و ادب ،افسانے اور ناول اور آپ بیتیاں پڑھنا ہمیں شعار بنا لینا چاہئے ۔
میں کیا بتائوں کہ ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے اور صاحبان فن حضرات بھی کتابوں کو اہمیت نہیں دیتے ۔ایک زمانہ تھا کہ خوبصورت کتابیں،رسالے اور اخبارات ڈرائنگ روم کی زینت بنتے تھے ۔مگر اب پسند اور ناپسند کے معیار بدل گئے ہیں ۔فرنیچر کے ڈیزائنوں پر بہت توجہ دی جاتی ہے اور کتاب خال خال ہی کسی گھر میں نظر آتی ہے ،گورنر پنجاب نے خاص طور بر بتایا اور میرا اپنا مشاہدہ بھی ہے کہ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، بیلجئم، امریکہ اور جاپان کی بلٹ ٹرینوں اور میڑو میں ہر تیسرا شخص یا تو اخبار پڑھنے میں مصروف ہوتا ہے یا کوئی کتاب کھول کر بیٹھا ہوتا ہے ۔ہمارے شہروں میںجہاں بک سٹالز ہوا کرتے تھے اب وہاں برگر کی دکانیں کھل گئی ہیں ۔ہماری برگر کلاس کو پتا ہی نہیں کہ کتاب کی اہمیت کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ تحقیق کیلئے لائبریریوں کارخ کرتے تھے لیکن اب لائبریریوں کا رخ کوئی نہیں کرتا ۔بڑی مشہور کہاوت ہے کہ بعض کتابیں پڑھنے کے لائق ہوتی ہیں ،کچھ چکھنے کی اور کچھ سونگھنے کی ۔اس محاورے پر اب وہ لوگ عمل کرتے ہیں جنہوں نے کتابوں کے دیباچے اور فلیپ لکھنے ہوتے ہیں یا ان پر تبصرہ کرنا ہوتا ہے۔زیادہ تر ادیب کتاب پڑھے بغیر دیباچہ اور فلیپ لکھتے ہیں اور تبصرہ کرتے وقت بھی کتاب کو سونگھنے تک کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے، ایسے صاحبان فن اپنے تبصروں کی کتابیں شائع کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں مگر انکے تبصروں اور دیباچوں سے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ مصنف نے کتاب میں کیا لکھا ہے اور کیوں لکھا ہے۔
میں خود کتابوں کا ناشر رہ چکا ہوں،کتاب شائع کرنا مشکل کام ہے ۔پہلے تو اچھی کتاب یا اچھے مصنف کی تلاش میں مشکل پیش آتی ہے ۔کتاب کی اشاعت کے اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اب انکی قیمتیں لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں ۔تین ہزار ،پانچ ہزار یا سات ہزار روپے کی کتاب خریدنا کسی طالب علم کیلئے بھی ممکن نہیں ہے ۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ کتاب کے کاغذ کی درآمد پر ڈیوٹی کم کرے اور جو کاغذ ملک کے اندر بنتا ہے اس کو بھی سستا رکھنے کیلئے ٹیکسوں کی چھوٹ دی جائے،ایسے اداروں کو بجلی بھی سستی دی جائے ۔پرنٹنگ پریس بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے جنریٹر لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں تو ایسے اداروں کو ڈیزل کم قیمت پر فراہم کیا جائے تاکہ کتاب کے اشاعتی اخراجات میں کمی واقع ہوسکے ۔یہ بات البتہ محل نظر ہے ہم لوگ کھانے پینے اور پہننے اور گاڑیوں پر ہزاروں اور لاکھوں کے اخراجات کردیتے ہیں لیکن کتاب کیلئے چند سو بھی جیب سے نکالنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔
جنرل غلام مصطفی نے یہ بتاکر سامعین کو حیران کردیا کہ جب وہ اکہتر میں جنگی قیدی بنے اور کلکتہ کے کیمپوں میں انہیں تین سال بسر کرنے پڑے تو انہیں کسی لمحے بوریت محسوس نہیں ہوئی اس لیے کہ وہ کتابیں پڑھنے کے عادی تھے۔کیمپوں میں انگریزی اخبارات اور میگزین بھی آتے۔ وقت گزارنے کیلئے ان کو بھی ہم حرف بہ حرف پڑھ ڈالتے۔جنرل مصطفی نے کہا کتاب انسان کی بہترین دوست ہے اس دوست سے منہ مت موڑئیے اور اسکے ساتھ وفا کیجئے ۔