منگل، 21 جمادی الثانی 1443ھ، 25 جنوری 2022ء
بہت مہنگائی ہے تھوڑا سا گھبرا لیں ۔ ایک کالر کا وزیر اعظم سے سوال
فون پر عوام سے بات چیت کا فیصلہ وزیر اعظم کا اپنا ہے۔ اب اس بارے میں وہ بخوبی جانتے بھی ہوں گے کہ عوام سے براہ راست گفتگو ہو گی تو بہت سی تعریفوں کے علاوہ بہت سی جلی کٹی بھی سننا پڑیں گی۔ سو اب جب بھی وزیر اعظم ٹیلی فون پر عوام سے مخاطب ہوتے ہیں تو ایک آدھ ہی سہی جلی بھنی کال سے بھی واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ رابطہ کرانے والے بھی کمال کا دھیان رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ زیادہ تلخ و ترش کالر سے واسطہ نہ پڑے اس لیے کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب چیک شدہ کالیں ملائی جاتی ہیں۔ اگر سب کالیں تعریفوں والی ہوں تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ یہ سب انجمن ستائش باہمی کا معاملہ ہے۔ اس لیے آٹے میں نمک کے برابر نمکین کالیں بھی وزیر اعظم اٹینڈ کرتے ہیں۔ اب گزشتہ روز کی ٹیلی فونک گفتگو میں پھر ایک کالر نے پچھلے ٹیلی فونک رابطہ میں پوچھے گئے سوال کو نئے رنگ میں ڈھال کر پیش کیا کہ ’’بہت مہنگائی ہے تھوڑا سا گھبرا لیں‘‘ اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ ’’مجھے ایک گھنٹے میں پتہ چل جاتا ہے کہ کہاں کتنی مہنگائی ہے‘‘۔ اگر ایسا ہے تو ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا اگر وہ کچھ نہیں کر سکتے تو پھر کسی سے کیا گلہ کیا جائے۔ باقی سب تو وزیر اعظم کی طرح دلیر نہیں کہ فوری ایکشن لیں۔ اب وزیر اعظم ہی بے خطر اس آتش نمرود میں کود پڑیں تو کچھ ہو گا ورنہ پہلے وزیر اعظم کہتے تھے گھبرانا نہیں۔ اب لوگ پوچھتے ہیں تھوڑا سا گھبرا لیں۔ اس ماحول سے پریشان عوام کو نکالنا ہو گا۔ صرف مایوسی پھیلانے والوں کو موردالزام ٹھہرانا درست نہیں۔ ورنہ شاعر سے معذرت کے ساتھ اس وقت حقیقت میں۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
’’مایوسی‘‘ بال کھولے سو رہی ہے
٭٭٭٭
اومیکرون کی نئی لہر، نیوزی لینڈکی وزیر اعظم نے اپنی شادی ملتوی کر دی
یہ ہے احساس ذمہ داری۔ یہ ہوتا ہے فیصلہ ۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے اس سال کے شروع میں موسم سرما میں شادی کا اعلان کیا تھا۔ جس کی تقریب میں ظاہر ہے اعلیٰ حکام نے شرکت کرنا تھی۔ اس کے علاوہ ملکی سطح پران کے حامیوں نے بھی تقریبات منعقد کرنا تھیں۔ مگر جب سے اومیکرون نے یورپ میں طوفان برپا کیا ہے ، لوگ اس سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے اس ڈر سے کہ کہیں ان کی شادی کی خوشی میں منعقدہ تقریبات میں لوگوں کے میل جول کی وجہ سے اومیکروں نہ پھیلے ، اپنی ذمہ داری کا اور لوگوں کی تکالیف کا ادراک کرتے ہوئے فی الحال اپنی شادی ملتوی کر دی ہے تاکہ کوئی کرونا کے خلاف حفاظتی اقدامات و انتظامات کی خلاف ورزی نہ کرے۔ جب حکمران ایسا کریں گے تو ظاہر ہے عوام بھی نجی تقریبات پر پابندی اور سماجی فاصلے کے احکامات پر بھرپور عمل کریں گے۔ ہمارے ہاں دیکھ لیں حالات خراب ہونے کے باوجود ہر طرح کی تقریبات جاری ہیں۔ ان میں حکمران طبقے کے اعلیٰ افراد بھی نہایت ذوق و شوق سے حفاظتی اقدامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شرکت کرتے ہیں۔ کوئی سماجی فاصلے اور ماسک کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ ہاں البتہ میڈیا پر اومیکرون کا شور مچاتے ہوئے یہ لوگ عوام سے احتیاط کی اپیلیں کرتے پھرتے ہیں جبکہ خود ہر شادی و دیگر تقریبات میں ہجوم کیساتھ فوٹو کھنچواتے ہوئے انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ انہی رویوں کی وجہ سے عوام بھی حکومتی اعلانات اور احکامات کو سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ ، عوام تو حکمرانوں کی نقالی کرتے ہیں۔
٭٭٭٭
چوری کی سینکڑوں وارداتوں میں مطلوب چوری شدہ گاڑی میں قتل
بڑوں نے اسی لیے کہا تھا جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ چوروں اور ڈاکوئوں کی موت بھی ایسی ہوتی ہے کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ یہ کوئی ماضی کا رونا نہیں حال کا نوحہ بھی ہے کہ ایسے سینکڑوں چوروں اور ڈاکوئوں کی لاشوں کو ان کے گھر والے بھی لینے نہیں آئے اور انہیں لاوارث قرار دے کر خیراتی اداروں نے دفنایا۔ جو لوگ دوسرے مجبوروں کی آہیں لیتے ہیں، وہ کبھی نہ خود خیر و عافیت سے جیتے ہیں نہ امن و سکون سے مرتے ہیں۔ کہیں پولیس مقابلے میں کہیں اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے کہیں ڈوب کرکہیں کسی ویرانے میں ان کی لاشیں ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘ بنی پڑی ملتی ہیں۔ دولت کی حرص میں مال و زر کے لالچ میں کسی کو اس کی جمع پونجی سے محروم کر دینا اسلحہ کی نوک پر گھر یا دکان لوٹ لینا۔ زیوراور موٹر سائیکل یا گاڑی چھین لینا ناجائز اور بڑا ظلم ہے۔ لٹنے والے اس وقت اور زیادہ دکھی اور خاموش ہوجاتے ہیں جب قانون بھی ان کی مدد نہیں کرتا۔ اس کے بعد پھر مکافات عمل شروع ہوتا ہے۔ مظلوموں کی خاموشی رنگ لاتی ہے اور عذاب کاکوڑا برستا ہے تو پھر ظلم کرنے والے انجام کو پہنچتے ہیں اور ان کی مدد کرنے والے بھی بدترین انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہی کچھ ممتاز موچی کے ساتھ بھی ہوا جو نامی گرامی چور تھا ایک دو نہیں 120 سے زیادہ چوری کی وارداتوں میںملوث یہ شخص بھی قتل ہوا تو وہ بھی ایک چوری شدہ گاڑی میں ، جس میں سفر کرتے ہوئے اسے قتل کیا گیا۔ لگتا تو یہی ہے کہ اس کے ساتھیوںنے یا پھر مخالفوں نے مار ڈالا۔ یوں جو کچھ کمایا یہاں ہی رہ گیا۔مظلوموں کی آہیں رنگ لائیں۔
٭٭٭٭
آئرلینڈ میں مردہ پنشن لینے آ گیا ،امریکہ میں مردہ قرار دیا شہری گرفتار
یورپ کے بہت سے کمالات میں سے ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہاں فراڈ کے نت نئے تجربات ہوتے رہتے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مردہ زندہ نکل آتا ہے یا زندہ مراہوا ہوتا ہے اب یہی دیکھ لیں آئرلینڈ میں 2 نوجوان ایک مردہ شخص کو سہارا دے کر پوسٹ آفس لائے تاکہ اسکی پنشن وصول کر سکیں۔ اب بدقسمتی سے ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ پوسٹ آفس والوں نے جب معلومات حاصل کرنا چاہیں تو دونوں عقل مند لٹیرے مردہ شخص کو چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ اسی طرح فراڈ کیس میں ملوث ایک امریکی سکاٹ لینڈ فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا جس کو دو سال سے مردہ قرار دیا جا چکا تھا۔ یہ دونوں کارنامے یعنی مردوں کو زندہ کرنے کے کارنامے مال بنانے کے چکر میں ظہور پذیر ہوئے۔ دو نوجوان مردے کی پنشن ہتھیانا چاہتے تھے، جبکہ فراڈی مال کھا کے بھاگنا چاہتا تھا۔ ہمارے ہاں بھی ایسی کراماتیں ظاہر ہوتی ہیں جب کوئی مردہ قرار دیا فراڈی سالوں بعد پکڑا جاتا ہے۔ یا کسی مردے کو زندہ ظاہر کر کے اس کی پنشن کھانے کے علاوہ اس کی جائیداد پر بھی ہاتھ صاف کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے وارداتیے کبھی زندہ ہونے اور کبھی مر جانے کے ناٹک کرتے پھرتے ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے برعکس یورپ و امریکہ میں ایسے فراڈی جلد پکڑے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ فراڈی لمبے عرصہ تک کامیابی سے کام کرتے رہتے ہیں۔ دو نمبری کی بدولت کئی زندہ مردے اب بھی ملک میں یا بیرون ملک بیٹھے عیش کر رہے ہیں۔