وزیراعظم گلے شکوے چھوڑیں اور عوامی مسائل حل کریں
اس وقت پاکستان میں عوام کو درپیش مسائل میں سے سب سے اہم مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ عمران خان نے 2013ء سے 2018ء تک عوام کو اس بات کا بار بار یقین دلایا کہ ان کے پاس ماہرین کی ایسی ٹیم موجود ہے جس کے پاس مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل کا حل موجود ہے اور یہ حل برسوں یا مہینوں نہیں بلکہ دنوں اور ہفتوں میں مہیا کیا جاسکتا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے دوران بھی انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے مسلسل انھی مسائل پر بات کی اور عوام سے کہا کہ اگر انھیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا موقع مل گیا تو وہ ملک اور عوام کی تقدیر بدل دیں گے۔ عوام نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں حکومت بنانے کے لیے مینڈیٹ دیدیا۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو شاید اقتدار میں آنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ تقریروں کے ذریعے عوام کا اعتماد تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔ اب جبکہ آئندہ عام انتخابات میں تقریباً سوا سال باقی رہ گیا ہے عمران خان خود بھی مہنگائی کی دُہائی دیتے نظر آرہے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اس وقت عنانِ اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے اور حکمران عام لوگوں کی طرح گلے شکوے نہیں کرتے بلکہ مسائل کا حل فراہم کرتے ہیں۔
اتوار کو ’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ‘ پروگرام میں شہریوں کی ٹیلی فون کالز کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مہنگائی کا مسئلہ میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ وہ ایک چیز ہے جو کئی مرتبہ مجھے راتوں کو جگاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ماضی کی حکومت کا چھوڑا ہوا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ملا جس سے مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ کورونا وبا کی وجہ سے سپلائی میں کمی کے باعث پوری دنیا میں مہنگائی ہوئی۔ دنیا کے کئی امیر ترین ممالک میں بھی مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی سے تنخواہ دار طبقہ متاثر ہوا ہے لیکن کسان خوشحال ہوا، مزدور طبقے کی طلب میں اضافہ ہوا، کئی شعبوں میں ریکارڈ ترقی ہوئی اور کارپوریٹ سیکٹر نے ریکارڈ منافع کمایا۔ کارپوریٹ سیکٹر کو اپنے ورکرز کی تنخواہیں بڑھانی چاہئیں۔ ہم ملک کو ایشین ٹائیگر یا لاہور کو پیرس نہیں بنانے جا رہے۔ ہمارا نظریہ اسلامی فلاحی ریاست ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوم برگ کے مطابق گیس کے بعد خوراک کا بحران بھی آئے گا اور اس وقت کینیڈا کے40 فیصد لوگوں کو خوراک کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ امریکہ میں کھانے کے لیے قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ برطانیہ میں بھی مہنگائی تاریخی سطح پر ہے۔
مختلف وجوہ کی بنا پر ہی سہی لیکن مہنگائی کے بڑھنے کا اعتراف کرنے کے بعد عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ہمارے دور میں تو غربت میں کمی آئی اور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں5.37 فیصد اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ مافیا مل کر مہنگائی کرتا ہے، ریگولیٹرز کو کام نہیں کرنے دیا جاتا، ریگولیٹرز کے اقدامات کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، ریگولیٹرز کے فیصلوں کے خلاف سٹے آرڈرز کی وجہ سے اڑھائی سو ارب روپے مافیاز نے روک رکھے ہیں۔ عدلیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ حکم امتناعی دینے کی بجائے فیصلے دے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں کاشتکاروں کی آمدن میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔ ہماری حکومت کو چار بحران ورثے میں ملے تھے۔ ہم ان سے نکلنے میں کامیاب رہے ہیں، کورونا سے کامیابی سے نمٹے، اب مہنگائی سے بھی نمٹیں گے۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر تنخوادار طبقے پر ہے۔ محصولات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ان کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کریں گے۔
حزبِ اختلاف کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ اصولاً تو مجھے پارلیمنٹ میں بات کرنی چاہیے لیکن بد قسمتی سے پارلیمنٹ میں اپوزیشن بات نہیں کرنے دیتی۔ پارلیمنٹ میں این آر او کے متلاشی لوگ بیٹھے ہیں، اگر آپ ان کے مطالبات پورے نہ کریں تو وہ آپ کو بات نہیں کرنے دیتے۔ انہوں نے اپوزیشن کو خبردار کیا کہ اگر حکومت سے نکل گیا تو میں اس سے زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا اور سڑکوں پر آیا تو اپوزیشن کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ انھوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انتظار کررہا ہوں آپ پاکستان آئیں، بڑی باتیں ہورہی ہیں کہ ڈیل ہوگئی، کہتے ہیں آج آجائے گا کل آجائے گا۔ میں تو دعا کرتا ہوں کہ یہ لندن سے آج آجائیں لیکن وہ واپس نہیں آنے لگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اپوزیشن سے کوئی مفاہمت نہیں کرنی، کوئی این آر او نہیں دینا۔ میں اپوزیشن کے احتساب کو جہاد سمجھتا ہوں۔
عمران خان کی تقریروں اور بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ بطور وزیراعظم اپنے عہدے کی مدت کا بڑا حصہ گزار چکنے کے باوجود انھیں اس بات پر یقین نہیں آیا کہ وہ سربراہِ حکومت ہیں۔ جہاں تک پچھلی حکومت کی طرف سے مسائل کا انبار ورثے میں ملنے کی بات ہے تو یہ شکوہ گزشتہ نصف صدی سے ہر حکمران جماعت کے لوگ کررہے ہیں لیکن یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔ کسی بھی شخص یا جماعت کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ وہ مسائل کے حل کے لیے قابل عمل پالیسیاں بنائے اور ان کو نافذ کر کے مسائل کا حل فراہم کرے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ جو تقریباً ایک سال کی مدت باقی رہ گئی ہے اس میں گلے شکوے چھوڑ کر مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں عوام کا سامنا اعتماد کے ساتھ کرسکیں۔