بھارتی جارحیت کا تسلسل وادی میں 2 کشمیری نوجوان شہید
نام نہاد سرچ اپریشن کے دوران قابض بھارتی جارحیت میں دو کشمیری نوجوان طلبا کی شہادت کیخلاف علاقہ کے مکینوں نے نہتے نوجوانوں کی شہادت پر شدید احتجاج کیا اور جدوجہد آزادی کشمیر کے حق میں نعرے بازی کی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔
مقبوضہ وادی میں بھارتی جارحیت میں روز افزوں اضافہ انتہائی تشویشناک ہی نہیں بلکہ عالمی اداروں اور طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ رواں ماہ میں اسکی اس جارحیت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونیوالے نوجوان کشمیریوں کی تعداد ایک درجن سے زائد ہو چکی ہے۔ لیکن بھارتی حکومت کی جانب سے دنیا کو یہی باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں جس پر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایسے بیانات کو تضادات کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اس طرح کے بیانات عالمی برادری کو مطمئن کرنے اور مقبوضہ وادی میں فورسز کی جارحیت سے توجہ ہٹانے کیلئے دیئے جاتے ہیں‘ جبکہ زمینی حقائق اسکے بالکل برعکس ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے وادی میں حالات معمول پر آنے کے بعد اسکی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا دعویٰ کیا ہے‘ لیکن انکے اس بیان پر تب ہی یقین کیا جا سکتا ہے جب بھارت خود وادی میں حالات کو معمول پر لانے کیلئے سنجیدہ ہو۔ وہ تو اپنی آئے روز کی جارحیت سے حالات کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔ اس تناظر میں بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر لانے اور وادی میں امن و امان قائم کرنے کی توقع عبث ہے۔ اگر بھارت وادی میں امن و امان کیلئے واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو استصواب کا حق دینا چاہیے اور انہیں کسی دبائو میں لائے بغیر یہ فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی دینی چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔وادی میں بھارتی دہشت گردی اور کشمیریوں کی نسل کشی کیخلاف عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنی مجرمانہ خاموشی بہرصورت توڑنی چاہیے اور انہیں مقبوضہ کشمیر سمیت خطہ کی سلامتی کیلئے بھارت کیخلاف مؤثر کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔