اغیار کے کھیل

صاف ظاہر ہے اس خطے کو عالمی طاقتوں نے فی الحال طلاق دے دی ہے اس سے پہلے 80ء کی دہائی میں وہ ایسا کر چکے ہیں ۔ ان کے کچھ ریٹائرڈ حضرات کتابیں لکھتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یہاں کیا لینے آئے تھے اور کیا لے کر گئے ۔ استعمال وہ سبھی کو کرتے ہیں پچھلی دفعہ فتح کا اعلان کر کے گئے تھے اور جشن بھی مناتے رہے اس دفعہ شکست نما فتح حاصل کر کے گئے جب ان کا مفاد ہوتا ہے تو معمولی سے افسر کے تبادلے پر اثر انداز ہوتے ہیں جب مفادات نہ ہوں تو آج اس خطے کو دیکھ لیں ہر کوئی اپنی من مانیوں میں مصروف نظر آتا ہے، شاید نیو ورلڈ آرڈر میں کورونا کا احتمال نہیں تھا اس لئے بہت سارے فیصلے تبدیل ہو رہے ہیں۔ در حقیقت کورونا ہی ٹرمپ کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنا اور بھی بہت ساروں کا بنے گا ۔ اگر ہمارے پڑوس میں کانگریس ودیگرز نے ہمت دکھائی تو مودی بھی ٹرمپ کی طرح قصۂ پارینہ بن جائے گا ان کی عدم توجہی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ ہمارے ہاں بھی صدارتی نظام کی بحث عروج پر ہے کیونکہ اب ڈکٹیشن نامی لفظ ڈکشنری سے غائب ہوچکا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل واشنگٹن کے ساتھ اسلام آباد کا نام لیا جاتا تھا یعنی دنیا بھی حیران تھی۔ ہزاروں کیمروں کے سامنے ہمارے وزیراعظم دنیا کی توجہ کا مرکز تھے اور اب آپ کے مطلوبہ نمبر سے جواب بھی موصول نہیں ہو رہا میرے خیال میں امریکہ ہمیشہ ناجائز تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ وہ اسوقت حیران ہوتا ہے جب وہ پوری دکان دے رہا ہوتا ہے اور ہم صرف ایک ٹافی کا تقاضہ کرتے ہیں اور ہمارے چہروں کی مسرت ظاہر کر رہی ہوتی ہے کہ پتہ نہیں کتنا مال غنیمت ہاتھ آیا ہے ہم اچھا سودا کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی جب کئی دفعہ یہ خطہ عالمی توجہ کا مرکز بنا کیوں بنا ؟ہمارے تھنک ٹینک کیا کرتے رہے بڑی ہی شاندار قیمت وصول کرسکتے تھے مگر ہم انکی معمولی سی توجہ کو بھی اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔ بس 001 سے کال ہی کافی ہے۔جس طرح وہ اُلجھے ہوئے تھے یا ان کے مفادات تھے ہمیں تو لوٹ کے کھا لینا چاہئے تھا ۔بہترین سودا کرنے والوں کا انہوں نے کیا بگاڑ لیا اگر کہیں کچھ ہوا بھی تو قوم کا تو بھلا ہو گیا۔
افغانستان جس دوراہے پر کھڑا ہے یہ پہلی دفعہ تھوڑی ہوا ہے ۔آج وہاں خوفناک غذائی بحران سر اٹھا رہا ہے۔کیا افغانستان کو ایک کامیاب ریاست نہیں بننا چاہئے وہاں کاروبار ، تعمیر و ترقی ہو مگر کیا کیا جائے ہر دس پندرہ سال بعد عالمی استعماری طاقتیں وہاں کوئی نہ کوئی فلم چلا رہی ہوتی ہیں اور اس فلم میں مرکزی کردار کی طلب صرف ہمیں ہی ہوتی ہے ۔اس صورتحال کا ہمیں یہ نقصان بھی ہوا کہ تواتر سے ان کی اس خطے میں دلچسپی ہمارے اقتدار کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی رہی اور ہم تقریباً اس کے عادی ہو چکے ہیں اب جبکہ وہ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر حسب معمول نکل چکے ہیں تو ہمیں اپنے بہت سے فیصلے خود کرنے پڑ رہے ہیں ۔کیا ہم بھی اپنے فیصلے خود کریں گے اس کا یقین نہ قوم کو آرہا ہے نہ فیصلہ سازوں کو یہ صدارتی نظام کی بحث بھی اسی کا شاخسانہ ہے یا کچھ اور بھی نمودار ہو سکتا ہے۔ میرے دوست کے مطابق تو ہمارا حل یہ ہے کہ ہر کسی کو قابل قبول الیکشن کروائے جائیں لیکن مجال ہے جو کسی کی توجہ اس طرف جائے۔ الیکشن میں وقت پڑا ہے کیوں نہ انتخابی اصلاحات کی طرف پیش قدمی کی جائے جو سب سے اہم ترین مسئلہ ہے مگر یہاں تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے مل بیٹھ کر پیچیدہ مسائل کا حل کیسے نکالیں گے ؟کل ہی وزیراعظم صاحب فرما رہے تھے میں اگر اقتدار میں نہ بھی رہوں تب بھی ان کیلیے زیادہ خطرہ رہونگا تو پھر یوں کرلیں کیوں نہ انہی طاقتوں سے کہہ دیں کہ اس دفعہ خصوصی شفقت فرمائیں اپنا اثرورسوخ استعمال کریں اور ہمارے کچھ ضروری بنیادی مسائل ہی حل کردیں۔