رانا شوکت حیات نون …عہد وفا کا آخری چراغ

عمرا ور علالت کی تیز ہوائوں میں زندگی کا چراغ لاہور میں گل ہوگیا ۔ وہ رخت سفر باندھنے کا ارادہ کرتے ہوئے سوچتے رہتے تھے۔ لندن اور دبئی کے جدید طبی اداروں میں سرد اور سفید بستر پر نیم دراز ، خاموش! بند آنکھوں کے ساتھ ان کی کیفیت فیض کی اس نظم کا عکس بن کر لہراتی تھی ۔
؎ خیال سوئے وطن رواں ہے ، سمندروں کی ایال تھامے
ہزار وہم و گماں سنبھالے، کئی طرح کے سوال تھامے
وہ لوٹ آئے ، وہ جو صرف ایک سیاستدان اور نون قبیلے کے سربراہ نہیں بلکہ شجاع آباد شہر کے ماتھے کا جھومر تھے ۔ حیات خانوالہ سے شجاع آباد کو کراس کرتے ہوئے انہیں اس شہر کی ہوائیں خاموشی کے ساتھ ’’خوش آمدید ‘‘کہا کرتی تھیں۔ جس کی سوندھی مٹی کی مہک کو روح کی گہرائی تک محسوس کرتے ہوئے وہ اکثر سوچا کرتے تھے کہ ’’ اے میرے شہر ! تم سے جدا ہو کر شاید کہیں بھی سکون سے نہ سوپائوں گا ‘‘ انہیں اپنے گائوں سے بہت پیار تھا ۔ وہ اب ہم میں نہیں رہے ۔ جو اس فارسی شعر کا عکس تھے کہ ’’وفا کرتے ہیں ، ملامت سہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں ‘‘ جس وقت پرویز مشرف پاکستان کے حکمران بن گئے وہ وقت رانا شوکت حیات نون کیلئے آزمائش کا سب سے کڑا وقت تھا ۔ پرویز مشرف کو سیاسی سپورٹ کی سخت ضرورت تھی۔پنجاب میں چودھری خاندان نے ’’ق لیگ‘‘ بنا کر انہیں کسی حد تک سیاسی سہارا دیا مگر عالمی سطح پر وہ اپنے آپ کو لبرل اور جہموری مزاج رکھنے والے فوجی حکمران کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے ۔ اس لیے چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے وہ شجاع آباد تشریف لائے اور رانا شوکت حیات نون پر پریشر ڈالا کہ ان کے ساتھ مل جائیں لیکن رانا شوکت حیات نون کا دل مسلم لیگ (ن)کے ساتھ اٹکا ہوا تھا اور وہ میاں نواز شریف کے وفادارساتھیوں میں شما ر ہوتے تھے، انکار کردیا اور اپنے بیٹے رانا اعجاز احمد نون کو صوبائی اسمبلی کی سیٹ کیلئے مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ پر کامیاب کرایا۔
یہ وہ دور تھا جب سیاستدان، ڈی آئی جیز اور ڈپٹی کمشنرزکے کمروں میں بیٹھ کر مسلم لیگ (ن)کی جماعت سے لاتعلقی کی تحریر پر دستخط کررہے تھے۔ حالانکہ اس وقت پر ویز مشرف سیاسی طورپر بہت مضبوط ، امریکہ کی آنکھ کا تارا ارو پاکستان کے باوردی صدر تھے۔ اس وقت عوامی حلقوں میں بھی ان کا امیج اس قدر نہیں بگڑا تھا کہ کوئی سیاستدان ان کی آفر قبول کرکے اپنا سیاسی کیرئیر تباہ کردے ۔ وہ نہ صرف بیرون ملک بلکہ اندرون ملک بھی کافی حد تک مقبول تھے اور ان کی ضد تھی کہ مسلم لیگ مائنس نواز شریف اور پیپلز پارٹی مائنس بے نظیر بھٹو حکومت کا حصّہ بن جائیں ۔ مگر رانا شوکت حیات نون نے ان کی اس آفر کو مسترد کرکے خود پرویز مشرف کو بھی حیران کردیا جبکہ مسلم لیگ (ن)کی پارٹی قیادت اس دور میں رانا شوکت حیات نون سے ملاقات کرنے کیلئے تیار نہ تھی مگر اس کے باوجود’’ رانا صاحب ‘‘نے وفا کا دامن نہ چھوڑا۔ ا نہوں نے بغاوت کا پرچم بھی بلند نہ کیا ۔ وہ خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہے اور جب اصرار پر انہوں نے بات کی تو تب نواز شریف ، شہباز شریف کے خلاف کوئی بیان دینے کی بجائے وہ سارے سوالات کے جوابات اشعار میں دیتے رہے ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا بیٹا آزاد اُمیدوار کے طور پر صوبائی اسمبلی سیٹ پر کامیاب ہوا ہے تو (ق) لیگ اقتدار میں ہے مگر آپ پاور کاریڈ ورز سے دورہیں ۔ اس پر آپ کیا کہیں گے ؟ تب انہوں نے مسکرا کر کہا تھا کہ یہ سوال آپ مجھ سے پوچھ سے نہیں اُن سے پوچھیں اور پھر انہوںنے ایک شعر گنگنا یا جس کا مطلب تھا کہ انہیں بتانا چاہئے جو ایک شہر میں رہتے ہیں ، مگر ملاقات نہیں کرتے۔پھر جب مسلم لیگ (ن)پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اُبھر کر آئی اور اُن کے بیٹے رانا اعجاز احمدنون کو ٹکٹ دینے کی آفر کی تب انہو ںنے فرض سمجھ کر اسے قبول کیا اور آخر وقت تک پارٹی کے ساتھ رہے ۔ وہ فخر کی علامت ، وہ چراغ راہ ِ وفا گزشتہ رو ز آنکھوں موند کر اس سفر پر چل نکلے ۔
رانا شوکت حیات نون سیاست کے اس سلسلے کی آخری کڑی تھے جو ذاتی مفاد کی خاطر اپنے اُصولوں کو قربان نہیں کرتا۔ اتوار کی دوپہر بعد نماز ظہر حیات خانوالے میں ایک شخص کو نہیں بلکہ ایک دور کو دفن کیا گیا ۔ وہ دور جو سیاست کو عزت اور خدمت سمجھتا تھا، وہ جو الفاظ کی حرمت سے آشنا اور اپنے وعدے کو پورا کرنے کیلئے سب کچھ لُٹا دیتا تھا ، اور خوف سے سینہ سپر ہونے کی جرأت کا مالک تھا ۔ وہ سیاست کو سازشوں کا کھیل سمجھنے سے انکار کرتااور اقتدار کے اصولوں کو بالائے طاق رکھنے کے تصور سے بھی نفرت کیا کرتا تھا، وہ سوچ کر بولتا تھا مخالف کیلئے ایسے الفاظ کا انتخاب نہیں کیا کرتا تھاجو نازیبا ہوں ، وہ سیاست کا حسن تھا ، وہ سارا دن اپنی اقامت گاہ پر بیٹھ کر عوام کے مسائل حل کراتا ، وہ دور ان کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔وہ جب بھی ایم این اے بنے بڑی ایمانداری سے علاقے کے مسائل کے حل کیلئے دن رات لگے رہتے۔ اب ہم ان کے بعد والے دور میں زندہ رہیں گے اور سیاست کے نام پر ناقابل یقین تماشے دیکھیں گے ۔ وفا کی بجائے بے وفائی کے قصّے سنیں گے ۔ تمیز کی بجائے بد تمیزی کے ڈھول پر بد تہذیبی کا رقص دیکھیں گے ۔ وہ سنہری دھوپ جو اپنے آفتاب کے ساتھ چلی گئی ۔ سیاست کی سرد اور سیاہ رات میں اس کی یاد تو بہت آئے گی ۔ وہ ایک چراغ شام تھے ان کے بعد اقتداری سیاست کے مقدر میں طویل اور تاریک رات کا سفر ہے ۔ وہ سفر جسے نہ معلوم رانا شوکت حیات نون کی مانند منزل ملے یا نہ ملے ۔