بہتر ہے جوبائیڈن انتظامیہ امن عمل کا سلسلہ وہیں سے شروع کرے جہاں ٹرمپ چھوڑ کر گئے
جوبائیڈن انتظامیہ نے طالبان‘ امریکہ امن معاہدے کا جائزہ لینے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ کے قومی سلامتی مشیر نے افغان حکام کو فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔ اس حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان نے افغان ہم منصب حمداللہ محب سے فون پررابطہ کیا ہے۔ گفتگو میں مشیرقومی سلامتی وائٹ ہائوس کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ طالبان کیساتھ امن معاہدے پر نظرثانی کریگی، جائزہ لیا جائیگا کہ طالبان کے مسلح گروپ سے تعلقات ختم ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے۔ جیک سیلوان نے اپنے افغان ہم منصب پر یہ بھی واضح کیا کہ اس بات کا جامع تجزیہ ضروری ہے کہ سابق امریکی حکومت اور طالبان کے مابین طے پانے والی اس ڈیل کی نکات کیا ہیں اور ان پر عمل درآمد کس طرح ہو سکتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد طالبان تشدد میں کتنی کمی لائے ہیں، اس گروہ نے دیگر انتہا پسند گروپوں سے اپنے رابطے کس حد تک ختم کیے ہیں اور اس نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی خاطر کیا اقدامات کئے ہیں۔ سیلوان کے مطابق ڈیل کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ طالبان اس ڈیل کے تحت طے پائے جانے والے سبھی نکات کا احترام کریں۔ وہ افغانستان میں 20 سالوں سے جاری جنگ کو ہمیشہ کیلئے ختم کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی وطن واپسی چاہتے ہیں۔
امریکہ افغان طالبان امن معاہدہ گزشتہ سال ہوا تھا، امن معاہدے کے تحت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کو نکالا جانا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے اس ماہ کی پندرہ تاریخ کو ا فغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزارکر دی تھی۔اس معاہدے کے تحت افغانستان میں امن کی بحالی کا امکان پیدا ہوا تھا۔ بلاشبہ خطے کا امن افغان امن سے وابستہ ہے۔ کچھ قوتوں نے افغانستان کے امن کو برباد کرکے رکھ دیا۔ امریکہ نے بندوق کے زور پر افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے افغانستان کے اندر کردار ادا کرنے پر مجبور کیا مگر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے سے معذرت کی تو تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی جو بھارت کے جھوٹے پراپیگنڈے کے باعث پہلے سے موجود تھی۔ پاکستان نے امریکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ امن طاقت کے نہیں مذاکرات کے ذریعے ہی بحال ہو سکتا ہے۔ یہ بات ٹرمپ انتظامیہ کی سمجھ میں آگئی۔ طالبان کو بھی پاکستان نے مذاکرات پر آمادہ کیا۔ پاکستان کی کوششوں سے قطر میں امریکہ طالبان براہ راست مذاکرات ہوئے جن کے نتیجے میں29 فروری کو گزشتہ سال امن معاہدہ طے پا گیا۔ جس کے تحت طالبان کے قومی دھارے میں آنے کی امید پیدا ہوئی۔ افغانستان میں امن بحال ہوتا ہوا نظر آنے لگا۔ اس امن معاہدے کے تحت طالبان اور افغان انتظامیہ کو جنگ بندی کا پابند کیاگیا تھا۔ اگلے دس روز میں فریقین کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہونا تھا اور 20 مارچ کو انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز ہونا طے پایا تھا۔
بھارت افغانستان کے مخدوش حالات کا فائدہ اٹھا کر افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرتا رہا اور بدستور کر رہا ہے۔ پاکستان نے ایسی مداخلت روکنے کیلئے بارڈر مینجمنٹ شروع کی تو بھارت کے برگشتہ کرنے پر افغان حکومت نے اسکی سخت مخالفت کی۔ یہ حکومت پاکستان سے افغانستان میں دہشت گردوں کے داخلے کے الزامات لگاتی رہی ہے۔ باڑ لگنے سے افغانستان میں مبینہ دہشت گردوں کا داخلہ ناممکن ہو جاتا۔ پاکستان سے افغانستان میں دہشت گردوں کے داخلے کا الزام افغان حکومت کے رویے سے جھوٹا ثابت ہوگیا۔ بھارت کے پاکستان میں مداخلت کے راستے افغانستان میں امن کے قیام سے بھی مسدود ہو جاتے ہیں۔ امن معاہدے پر عمل سے طالبان قومی دھارے میں آتے ہیں تو وہ اقتدار میں بھی حصہ دار ہونگے۔ انتخابات کی صورت میں وہ افغانستان کی بڑی پارٹی کی صورت میں اقتدار میں آسکتے ہیں۔
اشرف غنی انتظامیہ انہی خدشات کے تحت پہلے امریکہ طالبان مذاکرات کی اور بعدازاں امن معاہدے کی شدید مخالفت کرتی رہی۔ مذاکرات کے دوران ایک موقع پر افغان قومی سلامتی کے مشیرحمداللہ محب امریکہ کے دورے پر تھے۔ انہوں نے زلمے خلیل زاد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مذاکراتی عمل میں ذاتی فائدہ ہے۔ وہ افغانستان میں عبوری حکومت لا کر وائسرائے بننا چاہتے ہیں۔ اس پر امریکہ کی طرف سے شدید ردعمل آیا اور افغان قومی سلامتی کے مشیر کو امریکہ سے نکل جانے کو کہا گیا۔ آج اسی صاحب سے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان امن معاہدے پر نظرثانی کیلئے مشاورت کر رہے ہیں۔ جوبائیڈن انتظامیہ کا امن معاہدے پر نظرثانی کا موقف امن معاہدے کی مخالفت کرنے والوں کیلئے اطمینان بخش ہوگا۔ بھارت اور افغان حکمران کا دل بلیوں اچھل رہا ہوگا جبکہ افغانستان میں امن کے خواہاں حلقوں کیلئے یہ بیان تشویش کا باعث ہے۔
طالبان نے معاہدے سے قبل اعتماد سازی کے طور پر حملے بند کردیئے تھے جبکہ معاہدے کے تحت جنگ بندی کی شق کو افغانستان حکومت نے ایک ڈرامے سے سبوتاژ کرادیا۔ ایک تعزیزی اجلاس پر حملہ کرانے کا الزام طالبان پر لگا دیا۔ طالبان نے تردید کی تھی۔ اسکے بعد طالبان کیخلاف اپریشن شروع ہو گئے اور جواب میں طالبان بھی پہلی ڈگر پر آگئے۔ قیدیوں کی رہائی سے پہلے تو کابل نے انکار کردیا امریکہ کے دبائو پر رہائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ انٹراافغان مذاکرات میں کابل کی عدم دلچسپی کے باعث خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہو سکی تاآنکہ امریکہ میں نئی حکومت آگئی جس کو افغان انتظامیہ گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحید عمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ کابل کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں جو طویلے کی بلا بندر کے سر تھونپنے کی کوشش ہے۔
امریکہ طالبان معاہدہ ایک طویل عمل کے بعد کئی نشیب و فراز سے گزر کر طے پایا جس میں امریکی حکومت فریق تھی۔ یہ معاہدہ افغانستان میں امن کی ضمانت ہے۔ افغان امن عمل میں طالبان کے کردار کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ اسکے ساتھ جوبائیڈن انتظامیہ افغان حکومت کے رویے کو بھی دیکھے جو سولوفلائٹ کرنا چاہتی ہے۔ سٹیٹس کو آج کے حکمرانوں کے اقتدار کو تو تحفظ دے سکتا ہے لیکن کس قیمت پر؟ افغانستان میں دہشت گردی کے جاری رہنے کی قیمت پر؟؟ افغانستان اور خطے میں امن کی بحالی کیلئے جوبائیڈن انتظامیہ افغان امن عمل کا سلسلہ وہیں سے شروع کرے تو بہتر ہے جہاں سے انکے پیشرو چھوڑ کر گئے ہیں۔