بھارت میں دہشتگرد تنظیمیں اور سرپرست حکومت
بلا شبہ ’’ ڈس انفولیب‘‘ اور ’’ گوسوامی لیکس‘‘ نے بھارتی حکومت کی ریاکاریوں کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ بھارتی مین سٹریم میڈیا جو ویسے تو ایک کبوتر بھی پاکستان سے بھارت کی سرحد عبور کر جائے تو کئی کئی دن تک آسمان سرپر اٹھائے رکھتا ہے، وہ چالیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کو ’’ ایک بڑی فتح‘‘ کہنے والے گوسوامی کے بارے میں خاموش ہے۔ لگتا ہے کہ بھارتی میڈیا کیلئے ان چالیس بھارتی ’’ مقتولوں‘‘ کی قیمت ایک پاکستانی کبوتر سے بھی کم تھی۔ انہیں مقتول میں نے اس لیے کہا کیونکہ اب یہ واضح بھی ہو چکا ہے اور ثابت بھی کی مودی سرکار اور مودی میڈیا نے الیکشن دوبارہ جیتنے اور پاکستان اور اسلام کیخلاف اقدامات کرنے کیلئے خود اپنے چالیس فوجیوںکو قتل کروایا تھا۔ اگر ان چالیس فوجیوں کا قتل دہشت گردی تھی تو پھر یہ دہشت گردی تو بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا نے بھارتی ریاست کیخلاف کی تھی۔ اور اس کا تعلق، طاقت اور حکومت کے حصول اور ذاتی مفادات سے تھا نہ کہ پاکستان یا اسلام سے۔
ویسے تو بھارتی حکومت اور میڈیا کو بھارت میں ہونے والی تمام دہشت گردی کی جڑیں اسلام اور پاکستان میں ملتی نظر آتی ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات میں سے اکثریت کا تعلق بھارت کے اندرونی معاملات سے ہے نہ کہ پاکستان یا اسلام سے۔مہاراشٹرا، پونا، بہار، اتر پردیش، ناگا لینڈ، آسام ، منی پور، میزورام، کرناٹکا، آندھرا پردیش، حیدر آباد، تامل ناڈو وغیرہ میں آئے دن دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں جن کی وجوہات اکثر اسلامی تو کیا مذہبی بھی نہیں ہوتیں۔ بھارت نے اسوقت سو سے زائد تنظیموں کو سرکاری طور پر دہشت گرد قرار دیکر ان پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق بھارت میں تقریباََ 200 کے قریب دہشت گرد تنظیمیں فعال ہیں جن میں سے اکثریت کی بنیاد مذہب پر نہیں بلکہ دیگر وجوہات پر ہے۔ اور اگر ایسی کچھ تنظیمیں مذہب کی بنیاد پر قائم بھی ہیں تو انکی اکثریت اسلام سے تعلق نہیں رکھتی۔ آندرا پردیش، مدھیہ پردیش، اڑیسہ اور بہار میں موجود دہشت گردی کی وجوہات مذہبی کی بجائے زیادہ تر معاشی ہیں۔ ان علاقوں میں شدید ترین غربت ، معاشرتی استحصال اور معاشی نا انصافی کی بنا پر بہت سی دہشت گرد تنظیمیں قائم اور فعال ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق ’’ مائوسٹ تحریک ‘‘ سے ہے۔ ’’ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا‘‘ ( مائوسٹ تحریک) کا اعلان شدہ ایجنڈہ ہے کہ وہ ’’ عوامی جنگ‘ ‘ کے ذریعے بھارت کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ انڈیا کو جو بے شمار اندرونی خطرات لاحق ہیں ان میں سے ایک بڑا خطرہ مائوسٹ تحریک ہے اور اس کا کوئی تعلق نہ تو اسلام سے ہے اور نہ اس میں کوئی مسلمان شامل ہے۔
اگر ناگا لینڈ، میزورام اور منی پور کی جانب چلیں تو ان علاقوں میں بھی بیسیوں دہشت گرد تنظیمیں آئے دن قتل و غارت کر رہی ہیں اور ان میں سے اکثریت کی بنیاد نسلی ہے۔ ان علاقوں کے لوگ نسلی اعتبار سے اپنے آپکو انڈیا سے الگ سمجھتے ہیں اور آزادی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اس مشن کی تکمیل کیلئے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ شمال مغربی بھارت میں کچھ دہشت گرد تنظیمیں در اصل منشیات کے مافیا ہیں اور یہ دہشت گردی اس لیے کرتی ہیں کہ انکے منشیات سمگلنگ کے روٹ قائم اور چلتے رہیں۔ ’’ سائوتھ ایشین ٹیرر پورٹل‘‘ کیمطابق انڈیا میں 2000 سے ابتک ( جنوری 2021) دہشتگردی کے واقعات میں 22116 افراد قتل ہوئے ۔ ان میں سے صرف 3481 بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مرنے والے افراد جموں کشمیر کے علاقے میں قتل ہوئے باقی سب واقعات بھارت کے دیگر علاقوں میں ہوئے جن کی ذمہ داری شمال مغربی ہندو دہشت گرد تنظیموں اور بائیں بازو کی ایسی دہشت گرد تنظیموں نے قبول کی جو مذہبی اعتبار سے ہندو ہیں۔ان تنظیموں کے مقاصد جو بھی ہوں ، مذہبی اعتبار سے یہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ جہاد کر رہی ہیں۔ ویسے بھارت میں کروڑوں مسلمان بھی بستے ہیں، ان میں سے بھی کچھ شاید اپنے کسی مقصد کیلئے کسی اعتبار سے کسی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوں ، لیکن یہ لوگ نہ تو پاکستان کے نمائندے ہیں اور نہ اسلام کے بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں کی طرح انہوں نے اپنے جائز یا ناجائز مقاصد کے حصول کیلئے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جو بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بہر حال ’’مصدقہ اعداد و شمار‘‘ کے مطابق انڈیا میں دہشت گردی سے ہونیوالی اموات میں سے صرف 4.5 فیصد کی ذمہ دار اپنے آپ کو مسلمان کہنے والی تنظیمیں جبکہ باقی اموات ایسے واقعات میں ہوئیں جن کی ذمہ دار غیر مسلم ( زیادہ تر ہندو) دہشت گرد تنظیمیں تھیں۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار آئی ایس آئی یا پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مہیا کردہ نہیں ہیںبلکہ انکے ماخذ ’’سائوتھ ایشین ٹیرر پورٹل‘‘ اور نئی دہلی میں قائم ’’انسٹیٹیوٹ آف کانفلیکٹ مینجمنٹ‘‘ اور انکے ذیلی ادارے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ بھارتی حکومت جموں کشمیر میں ہونیوالے واقعات کے علاوہ باقی96 فیصد سے زائد واقعات نہ تو نظر آتے ہیں اور نہ بھارتی حکومت انکے بارے میں بات کرنا پسند کرتی ہے۔ اصل دہشت گردی کو چھوڑ کر بھارتی حکومت اور میڈیا جموں کشمیر میں ہونیوالے واقعات کو بھی دہشت گردی کہتے ہیں اور اس سب کا تمام الزام پاکستان پر لگاتے ہیں۔ جبکہ در حقیقت یہ ایک تحریک آزادی ہے اور ان واقعات کو دہشت گردی سے الگ کر کے دیکھنا چاہئے۔ دوسری جانب بھارت مذہب ہی کی بنیاد پر ہونیوالی ’’سکھ دہشت گردی ‘‘( یا تحریک ِ آزادی؟)کے واقعات پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ دراصل بھارتی حکومت کچھ اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے اور کچھ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے اپنے ملک میں موجود دو سو سے زائد دہشتگرد تنظیموں کیخلاف کوئی کامیاب اقدام کرنے کی بجائے دہشت گردی کے تمام واقعات کا الزام پاکستان اور اسلام کے سر تھوپنے کی کوشش میں لگی ہے ۔ بھارتی میڈیا بھی یہ سوال اٹھانے میں ناکام ہے کہ بھارت میں ہونے والے دہشت گردی میں سے 96 فیصد سے زائد کا ذمہ دار کون ہے؟ ویسے تو یہ سب بھارت کی پرانی روش ہے لیکن مودی حکومت تو خاص طور پر ان ہندو دہشت گرد تنظیموں میں سے بہت سوں کی خود سرپرستی کر رہی ہے اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ کرسچین ، سکھوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر ہر طرح سے بھارت کی زمین تنگ کر رہی ہے ۔
بھارتی فوج اور ایجنسیاں اگر اپنی ’’ ریاست‘‘ کے ساتھ مخلص ہیں تو ان پر فرض ہے کہ وہ بھارتی حکومت کا آلہ کار بننے کی بجائے ان سب دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نہ صر ف کاروائی کریں بلکہ بھارتی عوام کے سامنے اپنی حکومت اور اسکے ذیلی اداروں کی حرکتوں کا پردہ فاش بھی کریں۔ ا س وقت یہ سب بھارت کے اندر سے ظاہر ہو رہا ہے اور پاکستانی حکومت اور پاکستانی میڈیا کو بھی یہ سب حقائق دنیا کے سامنے لا کر مطالبہ کرنا چاہئیے کہ بھارت اپنے اندرونی معاملات درست کرے اور ان دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرنے کی بجائے ان سب کے خاتمے کیلئے کوئی سنجیدہ حکمت عملی اپنائے کیونکہ یہ تنظیمیں نہ صرف بھارتی عوام کی دشمن ہیں بلکہ پورے خطے، بلکہ تمام دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہیں۔
٭…٭…٭