براعظم افریقہ ۔ہندو انتہا پسندی کی زد میں !
سبھی جانتے ہیں کہ بھارتی معاشرت میں رنگ ، نسل اور قوم کی بنیاد پر تعصب کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ مبصرین متفق ہیں کہ دنیا میں نسل کی بنیاد پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ آج بھی سب سے زیادہ بھارت میں ہے مگر گذشتہ کچھ عرصے سے بھارت میں پڑھ رہے افریقی ممالک سے آئے طلباء کیخلاف نسلی امتیاز کی اس روش نے خونی شکل اختیار کر لی ہے ۔ چند روز قبل دہلی میں کانگو سے تعلق رکھنے والے ایک استاد کو ہجوم نے پیٹ پیٹ کر لہولہان کر دیا ۔ یہ بد قسمت شخص دہلی کے ایک تعلیمی ادارے میں فرنچ زبان پڑھاتا تھا ۔ اس بد ترین واقعہ پر بھارت کی سول سوسائٹی کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا تھا کہ ایشیاء کے بعد افریقا دنیا کا دوسرا بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا براعظم ہے۔ یہ 30,370,000 مربع کلو میٹر پرپھیلا ہوا ہے اور زمین کی کل سطح کے 6فیصد رقبے پر محیط ہے۔2018 کے اعداوشمار کے مطابق 1.3 ارب افراد کے ساتھ، یہ انسانی آبادی کا تقریبا 16 فیصد بنتا ہے۔ یاد ہے کہ پچھلے 40 سالوں کے دوران افریقہ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور یوں یہ نسبتاً جوان آبادی پر مشتمل خطہ ہے کیوں کہ کچھ افریقی ممالک کی نصف سے زیادہ آبادی 25 سال سے بھی کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔یہاں پر عیسایت 49فیصد اور اسلام لگ بھگ 42فیصد ہے۔اس براعظم میں 56 ممالک ہیں لیکن دو ممالک کو بوجوہ تا حال متنازعہ سمجھا جا تا ہے۔انسانی حقوق کے علمبراداروں کوذہن نشین رہنا چاہیے کہ 29 مئی 2017 کو دہلی میںآدھے گھنٹے کے اندر سات مختلف جگہوں پرافریقی باشندوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں تقریباً سولہ ہزار کے قریب افریقی طلباء انجینئرنگ ، سائنس اور میڈیکل تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کو آئے روز نسلی امتیاز کی اس برہمنی ذہنیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تمام سیاہ فام افریقی خواتین کو کھلے عام بھارتی شہری طوائف قرار دیتے ہیں اور مردوں کو ڈرگ سمگلر اور فراڈیے کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے ۔ چند ماہ پہلے دہلی کے ایک صوبائی وزیر نے اپنے پڑوس میں رہ رہی ایک افریقی خاتون سے نہ صرف ساتھیوں سمیت اجتماعی بد اخلاقی کی بلکہ بعد میں پیٹ پیٹ کر جان سے مار ڈالا ۔ان بد نصیب افریقیوں پر بھارتی شہری یہ فقرہ بھی کستے ہیں ’’ گو بیک تو یور کنٹری ‘‘ ۔ اس معاملے کا یہ پہلو اور بھی توجہ طلب ہے کہ اکتوبر 2015 میں بھارتی دارالحکومت میں تمام افریقی ملکوں کی سربراہ کانفرس منعقد ہوئی تھی جس میں بھارت اور افریقہ کے مابین تعلقات کو تمام شعبوں میں بڑھانے کی بات کی گئی تھی اور دہلی سرکار نے اسے اپنی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا تھا ۔ حالیہ دنوں میں ایک بھارت جریدے سے بات کرتے ہوئے افریقی طلباء نے کہا ہے کہ انکے ساتھ ہندوستان میں ہر سرکاری اور عوامی جگہ پر ایسا حقارت آمیز سلوک کیا جاتا ہے جیسے وہ کسی بد ترین جرم کے مرتکب ہوئے ہوں ۔ ٹکٹ وغیرہ لیتے وقت انکے ساتھ کھڑے بھارتی شہری اپنے چہروں کو کپڑے یا ماسک سے ڈھانپ لیتے ہیں جیسے متعدی امراض میں مبتلا شخص سے بچائو کیلئے کیا جاتا ہے ۔
اس پس منظر میں ’’ جینت چوہدری ‘‘ نامی بھارتی ہندو دانشور نے کہا کہ ’’ بھارت میں بڑھتا ہوا یہ نسلی امتیاز آنیوالے دنوں میں ہندو ستان کی سلامتی کیلئے انتہائی خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ کرونا وائرس سے پہلے مودی کئی افریقہ ملکوں کا دورہ کرنیوالے تھے مگر اب افریقی ملکوں کی سول سوسائٹی کی جانب سے آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں کہ بھارت میں سرکاری اور عوامی سطح پر بڑھتے ہوئے اس نسلی تعصب کے پیش نظر نہ صرف بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں بلکہ بھارت میں پڑھ رہے افریقی طلباء کو واپس اپنے ممالک بلا لیا جائے۔ ‘‘ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اکتوبر 2015 میں بھارت افریقی سربراہ کانفرنس میں دہلی سرکار نے مختلف افریقی ملکوں میں سرمایہ کاری کے بڑے بڑے اعلانات کیے تھے اور اگر موجودہ صورتحال چلتی رہی تو اس سے افریقی ملکوں کیساتھ بھارتی تعلقات کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچنے کا حقیقی اندیشہ ہے۔ بھارتی معاشرت اور سیاست پر نظر رکھنے والے حلقوں کی رائے ہے کہ ہندوستان کے نسلی امتیاز کی یہ پالیسی محض افریقی ملکوں تک محدود نہیں بلکہ خود ہندوستان کے ہی شمال مشرقی بھارت کے آٹھوں صوبوں آسام ، ارونا چل پردیش ، سکم ، میزو رام،میگھالہ ، تری پورہ ، منی پور اور ناگا لینڈ کے باشندوں کے ساتھ بھی دہلی و شمالی اور مغربی بھارت میں اسی قسم کا تحقیر آمیز رویہ روا رکھنا روز مرہ کا معمول ہے اور شمال مشرق سے تعلق رکھنے والے طلباء کو نہ صرف انتہائی حقارت سے پکارا جاتا ہے بلکہ انھیں چین کا ایجنٹ بھی قرار دیا جاتا ہے اور تقریباً ہر مہینے شمال مشرقی بھارت کا کوئی باشندہ اس نسلی تعصب کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے گزشتہ ستائیس مئی کو ’’ نارتھ ایسٹ کونسل ‘‘ کا اجلاس ہوا جس میں ان آٹھ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنرز نے شرکت تو کی مگر تقریباً سبھی نے مودی سے اس صورتحال کی شکایت کی ۔
ماہرین نے کہا ہے کہ ہندوستان میں ذات پات اور نسلی تعصب کی جڑیں اتنی گہری ہیں جنھیں مہا تما بدھ بھی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مٹا نہ پائے اور الٹا مہا تما بدھ کو ہندوستان سے نکال دیا گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ان کی تعلیمات کو پذیرائی حاصل ہوئی ۔ ہندو قوم کی اسی نسلی امتیاز کی پالیسی کی وجہ سے بھارت گذشتہ دو ہزار سال میں مختلف غیر ملکی اقوام کا غلام رہا ہے اور موجودہ رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ آنیوالے دنوں میں بھی اس حوالے سے بھارت کا مستقبل زیادہ روشن نہیں البتہ یہ توقع کی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھارت میں اچھوتوں ، مذہبی اور نسلی اقلیتوں اور سیاہ فام افریقیوں اور نہتے کشمیریوں کے خلاف جاری اس مکروہ روش کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے بھارت کے بالا دست طبقات کو راہ راست پر لانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے ۔