افواہوں کی ہوائیاں

ان دنوں فارن فنڈنگ اور براڈ شیٹ سکینڈل کا چرچا زبان زدعام و خاص ہے۔ حزب اختلاف کا الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے کہ تحریک انصاف کیخلاف دائر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد سنایا جائے۔ یہ مقدمہ چھ سال سے محو انصاف ہے۔ فیصلے میں غیرمعمولی تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟ جہاں تک فارن فنڈنگ کے مقدمات ہیں تو ان میں صرف تحریک انصاف ہی ماخود نہیں‘ مسلم لیگ ن‘ پیپلزپارٹی کیخلاف بھی اسی قسم کے دعوے دائر کئے گئے۔ کیا ان جماعتوں نے بیرون ملک سے ملنے والی امدادی رقوم کی وصولی میں مروجہ قوانین سے انحراف کیا۔ الیکشن کمیشن سیاسی عمل کی ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بنک کی رپورٹ آگئی ہے۔ 23 اکائونٹ خفیہ رکھے گئے ہیں۔ اب تک خفیہ ہیں اور ان میں باہر کی آمدنی چھپائی گئی ہے۔ فارن فنڈنگ کیس 2014ء سے چل رہا ہے۔ سارا پیسہ ہنڈی کے غیرقانونی ذریعے سے پاکستان آیا۔ الیکشن کمیشن پارٹی فنڈنگ کیسوں کا پیش کردہ حقائق اور دلائل کی روشنی میں فیصلہ کرے۔ دوسری جانب براڈشیٹ کیس میں پاکستان کیخلاف برطانوی عدالت کے فیصلے کی دستاویزات منظرعام پر آنے کے بعد پاکستانی میڈیا اور سیاست براڈ شیٹ کے گرد گھوم رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی لفظی جنگ تیز تر ہو رہی ہے۔ براڈشیٹ 20 سال پہلے کے اثاثوں کی تحقیقات کررہی تھی۔ گزشتہ دس سال کا حساب تو ابھی آنا ہے۔ مشرف دور میں نیب نے 200 افراد کے نام براڈ شیٹ کو دے کر اس سے معاہدہ کیا تھا کہ بیرون ملک انکے اثاثوں کا سراغ لگایا جائے تاکہ ان کیخلاف کارروائی کی جاسکے۔ مگر آنیوالے وقت میں نیب اس پر قائم نہ رہ سکا۔ ان افراد میں سے بعض نے این آر او لیکر معاملہ رفع دفع کرادیا۔ باقی نے حکومت سے پلی بارگین کرکے اسے دبا دیا۔ براڈ شیٹ نے یہ ثابت کردیا کہ سیاست میں کیسے مداخلت ہوتی رہی ہے۔ کرپٹ لوگوں کو سیاست میں لانا‘ حکومتیں بنانا اور گرانا آمروں کی بدولت ممکن ہوا۔
مشرف دور میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کیخلاف کیسز ختم کر دیئے گئے۔ پارٹی فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی طرف سے 2014ء میں دائر کیا گیا جس کی اب تک ستر سے زائد سماعتیں ہو چکی ہیں۔ ہر پارٹی میں نامزدگیوں پر گزارہ ہو رہا ہے۔ بلاول اور مریم موروثی سیاست کے چراغ ہیں‘ کون ہے جو ق لیگ میں چودھریوں کے مقابل کھڑا ہو سکے۔ آئندہ انتخابات سے پہلے ہر پارٹی تھانے کی سطح الیکشن کرائے اور نئی قیادت سامنے لائے۔ سیاسی محاذآرائی کا کوئی تو حل سامنے آئے۔ کب تک ایک دوسرے کو نیچا دکھائیں گے۔ کب تک باہم دست و گریبان رہیں گے۔ کب تک باہم دست و گریبان رہیں گے۔ پاکستان میں حکمرانی آئین کی ہے یا مافیاز کی۔ بھٹو جیسا طوفانی قائد دوبارہ نصیب نہیں ہوا۔ وہ آناًفاناً فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ایٹم بم بنانے والا دلیر بھٹو ہی تھا۔ حکومت وقت کی دلیری کا یہ عالم ہے کہ صفائی کیلئے ترکی اور چینی کمپنیوں کی خدمات لیں۔ کچرا پھر بھی کراچی اور لاہور سے نہ ہل سکا۔ اگست 2018ء میں عمران خان نے 22ویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ 29 ماہ کی حکمرانی میں کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ سرپلس میں بدل گیا ہے۔ آٹے کی قیمت 35 روپے سے بڑھ کر 75 روپے کلو ہو گئی۔ چینی 55 سے 90 روپے کلو ہو گئی۔ بجلی کی قیمت گیارہ روپے یونٹ سے بڑھ کر 28 روپے یونٹ ہو گئی۔ 2018ء میں 31.3 پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے اور اب چالیس فیصد لوگ غربت کے شکنجے میں گرفتار ہیں۔ یہ تعداد 69 ملین سے بڑھ کر 87 ملین ہو چکی ہے۔ کمرۂ امتحان میں آدھا وقت گزر چکا ہے۔
2020ء کے آخری مہینے دسمبر میں ٹیکسٹائل کی برآمدات 22.72 فیصد بڑھ کر ایک ارب چالیس کروڑ دس لاکھ ڈالر پر پہنچ گئیں۔ ٹیکسٹائل چالیس فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ جی ڈی پی میں اس کا حصہ آٹھ فیصد سے زائد ہے۔ ملک کے مجموعی برآمدی شعبے میں ٹیکسٹائل مصنوعات کا حصہ تقریباً ساٹھ فیصد ہے۔ چار سو سے زائد ٹیکسٹائل ملیں ہیں جو یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتی ہیں۔ پٹرول مزید مہنگا ہوگیا ہے۔ ایک ہی مہینے میں بڑھنے والی قیمتوں کی اوسط شرح پانچ روپے سے زیادہ ہے۔ 2018 ء کے بعد سے تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس وقت فی لٹر پٹرول پر 45 روپے کے لگ بھگ چھ مدوں میں محصولات عائد ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہر روٹ پر پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چلتی۔ غریب کی سواسری چنگ چی رکشا ہے جسے ٹریفک وارڈن جینے نہیں دیتے۔ ان کیلئے ممنوعہ سڑکوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ نہر کے اطراف بھی چنگ چی کیلئے نوگو ایریا بن چکے ہیں۔ یہ کیسی غریب دوستی ہے۔ فارن فنڈنگ کیس میں اپوزیشن کو وزیراعظم کا چیلنج قبول کرنا ہوگا کہ تمام پارٹی سربراہ بٹھا کر سماعت براہ راست نشر کی جائے۔ پتہ لگ جائیگا کس نے کہاں سے فنڈ لیا۔ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن نے 19 جماعتوں سے تفصیلات مانگ لی ہیں۔ تحریک انصاف پر الزام ہے کہ اسکے اکائونٹس میں غیرقانونی ذرائع سے پیسہ آیا۔ وزیراعظم نے تسلیم کیا ہے کہ تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس نے سیاسی فنڈ ریزنگ کی‘ اپوزیشن نے جن ملکوں سے پیسہ لیا‘ وزیراعظم تعلقات کی وجہ سے ان کا نام نہیں لینا چاہتے۔ وزیراعظم کا سوال ہے فضل الرحمان کی اربوں کی جائیداد کہاں سے آئی۔ مشرف جیسا طاقتور شخص بھی دبائو برداشت نہ کر سکا۔ دو مرتبہ این آر او لے کر گھٹنے ٹیک دیئے۔
الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج بھی ہولیا۔ پی ڈی ایم کے مظاہروں کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا۔ اسکے بعد لانگ مارچ ہوگا۔ اس وقت استعفوں سے زیادہ سیاست کا محور فارن فنڈنگ کا مقدمہ ہے۔ حکومت بیرون ملک ریکوڈک سمیت پی آئی اے اور براڈ شیٹ کے مقدمے ہار چکی ‘ جرمانے بھر چکی۔ حکومت براڈ شیٹ کی بنیاد پر ملک میں دوبارہ پانامہ کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔ سینٹ انتخابات کے بعد حکومت کو اگر برتری مل جاتی ہے تو وہ اپوزیشن کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ سات ماہ میں پٹرول کی قیمتوں میں 74 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اس کا تقاضا ہے کہ براڈ شیٹ کیس ہر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے اسے جوڈیشل کمیشن کے سپرد کرکے تحقیقات کراکر اصل حقائق سامنے لائے جائیں تاکہ براڈ شیٹ میں چھپے ملزموں کے جرائم سامنے آسکیں۔ اس وقت پھر چینی کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گنے کے کاشتکار یہ شکوہ کررہے ہیں کہ انہیں گنے کی قیمت پوری طرح نہیں مل رہی۔ ادویات کی قیمتوں میں چار مختلف مرحلوں میں کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ صرف ایک سال کے دوران سرکاری قرضے 3.7 کھرب روپے سے بڑھ کر 35.8 کھرب روپے کی سطح پر پہنچ گئے۔ 2018ء میں حکومت پر 24.2 کھرب روپے کا قرضہ واجب الادا تھا جس میں یومیہ 13.2 بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ براڈ شیٹ کے کئی پہلو تحقیقات طلب ہیں جن میں زیادہ تر سیاست دان ہیں جنہوں نے کرپشن اور منی لانڈرنگ سے بیرون ملک خفیہ جائیدادیں بنائیں۔ جرائم کسی بھی نوع کے ہوں‘ مجرموں کو سزا ملنی چاہیے۔ دنیا میں 70 فیصد ایل این جی طویل المدت معاہدوں کے تحت ہی فروخت ہوتی ہے۔ پاکستان میں گیس کی قلت کی وجوہات کا تعین کون کریگا۔ نئی پائپ لائن کا کام کیوں شروع نہیں کیا گیا۔ دوگنی قیمت پر ایل این جی کیوں خریدی گئی؟