اکرم سحر فارانی

ایک شاعر حرف ومعنی کی بنت کاریوںمیں یوں ذوق کی آبیاری کرتاہے جیسے باغباں مٹی کی۔ خیال کی حسن آفرینی کو اشعار کے آئینے میں علامت، اشعار سے تشبیہہ اور ردیف قافیے کے ساتھ تخلیق کے ہرعمل کو اصل صورت کے ساتھ ایک شاعر انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتاہے۔اس کتاب میں شاعر کے کلام کا خاصہ یہ ہے کہ انکی شاعری اپنے عہد سے جڑے ہونے کے باوجود پورے کلاسیکی رچائو اور شعری جمالیات سے بھی بہرہ مند ہے انہوں نے ذاتی تجربات اور مشاہدات سے لے کر کائناتی حقائق کو وسیع تر ذہنی افق کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری میں اس طرح مرقسم کیاہے کہ وہ جمالیاتی پیرائیہ اظہار کا اعلیٰ ترین نمونہ قرار پاتی ہے جس کی اثر پذیری سے شاید ہی کوئی بشر بچ پایا ہو، یہی اثرپذیری نہ صرف انکے شعری قامت کا تعین کرتی ہے بلکہ ان کو اپنے ہم عصر شعراء میں ایک منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔اکرم سحر فارانی کا مجموعہ کلام ’’آنکھ میں اترے منظر ‘‘موصول ہوا تو میرے ذہن میں جذبوں کے چہرے ابھرنے لگے وہ لکھتے ہیں تو ملی، واقعاتی موضوعاتی اور شخصی نظموں کامجموعہ مرتب کرتے ہیں، عورت، محبت، مزدور، وطن،شہید، یوم آزادی اور یوم کشمیر جیسے حساس موضوعات پہ شاعری ان کا خاصہ ہے انکی دوسری کتاب ’’در سے لگی آنکھ‘‘ غزلیات پہ مبنی ہے لکھتے ہیں۔
بولی تو لگاتے ہیں ضمیروں کے خریدار
لیکن میں اصولوں سے بغاوت نہیں کرتا
لکھا نہ لکھوں گاکسی جابر کاقصیدہ
شاعر ہوں میں جذبوں کی تجارت نہیں کرتا
یہ مجموعہ سادگی کے زیور سے آراستہ لطیف جذبوں کے اظہار کے ساتھ پڑھنے والے کو محظوظ کرتاہے جذبوں کا سوختہ پن اور قلم کی سیاہی ایک جان ہوتے ہیں۔
تو اکرم سحر فارانی جیسا شاعر لکھتاہے
مری پلکوںپہ تابندہ ستارے رقص کرتے ہیں
چھپے ہیں دل میں جتنے درد سارے رقص کرتے ہیں
وہ نہایت پختہ گو شاعر اور بہت نفیس انسان ہیں، محکمہ پولیس میں ہیں ایک قانون پسند متحمل مزاج اور صاحب کردار افسر ہیں۔ عرصہ دراز سے لکھ رہے ہیں انکی تحریروںمیں ایک سادگی اور جاذبیت نظرآتی ہے۔ زندگی کو انہوں نے ایک محبت کرنیوالے انسان کی حیثیت سے دیکھاہے اور ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے بیان کیاہے، لہجے کی سلاست، روانی انہیں ہم عصر شعراء میں ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ بطور خاص ہم نے نوٹس کیا ہے کہ ان کا غالب رجحان صوفیانہ طرز فکر کی جانب ہے، یہ بات کم شعراء میں ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر راہ اسلوب کا سفر کریں اور اس دوران اپنے لہجے کی شگفتگی اور توانائی بھی برقرار رکھ سکیں ، اپنی پہلی کتاب سے اب تک شائع ہونیوالے کلام میں نہ صرف انہوں نے زندگی کو بیان کیا ہے بلکہ اپنے مخصوص نکتہ نظر کی بھی اشعار کے پیرائے میں وضاحت کردی ہے ہر چند کہ وہ ادب کی دنیا سے ایک مدت سے وابستہ ہیں لیکن اپنی دفتری ذمہ داریوں اور اپنی خاموش طبعی کے باعث اخبار وجرائد اور محافل ومشاعروں سے ذرا کم ہی روابط رکھتے ہیں۔ وہ ہماری طرح کسی گروہ بندی یا گروپ بازی کے قائل نہیں ہیں بس لکھ رہے ہیں اور کسی بیساکھی کی ضرورت محسوس نہیںکرتے۔’’در سے لگی آنکھ‘‘ سحر فارانی کا ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں ڈکشن کی سطح پر سادگی ہے مگر سادگی لطف کا سامان فراہم کرتی ہے سحر فارانی کو شعر کہنے پر قدرت حاصل ہے انکے کلام میں زبان وبیان کی سلاست، فنی مہارت اور چابکدستی کا بین ثبوت فراہم کرتی ہے۔ عصری آشوب پر بھی متعدد مضامین شعر کے قالب میں ڈھل کر منظر عام پر آتے ہیں مگر سلیقے قرینے کے ساتھ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتاہے کہ شاعر نے زور لگاکر شعر کہنے کی کوشش کی ہے۔در سے لگی آنکھ میں زیادہ تر کلاسیکی اردو شاعری سے پختہ وابستگی دیکھنے کو ملتی ہے اس سے اس امر کا اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ شاعر وسیع المطالعہ بھی ہے اور وسیع النظر بھی، در سے لگی آنکھ میں زیادہ تر رومانوی موضوعات کو اشعار کے قالب میں ڈھالا گیاہے جس سے شاعر کے شعری رجحان اور میلان طبع کا بھی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ شاعر رومانیت کی بیکراں وسعتوں سے بخوبی واقف ہے اور وہ انسان کو کائنات کا نہ صرف خوبصورت مرکز تصور کرتاہے بلکہ وہ گوشت پوست کے انسان کی ہر دور میں خوبصورتی کو درحقیقت کائنات کی خوبصورتی تصور کرتے ہوئے اس سے محبت کا متقاضی ہے اور انسانی سماج کو مکمل طورپر پرامن اور محبت کی آماجگاہ کے طورپر دیکھنے کی خواہش اپنے ذہن وفکر میںلئے ہوئے ہے۔’’در سے لگی آنکھ‘‘ ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں کلاسیکی رچائو کے ساتھ مضامین شعری پیکر میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں اور اسکے ساتھ عصر شعور آگہی اور عصری حسیت بھی قاری کو اپنے جلو میں پیہم شریک کرتی ہے۔اردو غزل کا سفر جب در سے لگی آنکھ تک پہنچتاہے تو آغاز سفر کی سادگی بڑی حد تک پیچیدگی کے لاتعداد پہلوئوں کو اپنے قلم میں سموئے نظرآتی ہے اور انسانی ذہن وفکر کی پیچیدگی کا سفر بھی تخلیقی پیرائے میں جلوہ گر ہوتا ہوا دیکھا اور محسوس کیاجاسکتاہے۔