پاکستان میں جمہوریت کا سفر

پرائمری سکول میں تھا کہ پتہ چلا ذوالفقار علی بھٹو ملک کا وزیر اعظم ہے ۔اور دیکھا کہ لوگ اُس سے دیوانہ وار محبت کرتے تھے۔ابھی اس محبت کی سوجھ بوجھ مکمل نہ ہوئی کہ خبر سنی بھٹو کو پھانسی ہو گئی ہے اور ملک کی باگ دوڑ جنرل ضیاء نے سنبھال لی ہے ۔میرا تعلق جس علاقے سے ہے وہاں سے کبھی ہر گھر کا ایک یا دو بندے فوج میں ہوتے تھے،لوگوں کی فوج سے بہت محبت تھی مائیں چھوٹے بچوں کو فوج میں افسر بن کے دشمن کے مقابلہ کیلئے تیار کیا کرتی تھیں ۔ لیکن جب جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کے حکومتی امور سنبھال لیے تو کئی بزرگوں سے سنا کہ یہ اچھا نہیں ہوا ۔ویسے تو لوگ فوج سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن جب جب فوج نے اقتدار سنبھالا ہے تو اس پر سیاستدانوں اور عوام کی جانب سے شدید تنقید ہونا طے ہے ۔کہنے والے کہتے تھے کہ فوج جب دشمن سے مقابلہ کیلئے تیاری کرتی ہے تو ساری قوم اسکے ساتھ کھڑی ہوتی ہے لیکن جب وہی فوج عوام پہ حکومت کرنے لگے تو حکمرانوں سے عوام کو بہت سے اختلافات ہوجاتے ہیں ۔ سکول کی کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ جمہوریت کا مطلب ہے لوگوں کی حکومت ، لوگوں کے ذریعے اور لوگوں کیلئے۔جمہوریت کی یہ تعریف ان دنوں پڑھنے کو ملی جن دنوں ملک میں جنرل ضیا ء کی شخصی حکومت تھی ۔ایسے میں دل میں اس خیال کا آنا بنتا تھا کہ اگر میرے ملک میں لوگوں کی رائے(ووٹ) سے حکومت موجود نہیں ہے تو پھر جمہوریت کا یہ سبق سکول میں پڑھانے کا کیا مطلب ہے؟خیر وقت گزرتا گیا اور ابھی ہم سکول میں ہی تھے کہ طویل ترین فوجی حکومت کے بعد صدر مملکت جنرل ضیاء نے ملک میں جمہوری سسٹم کی بحالی کا آغاز کیا ۔ 1985 ء میں ملک میں غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے جن میں کامیابی حاصل کر کے محمد خاں جونیجو وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔ جونیجو صاحب کی پہچان پاکستان کے ان چند سیاست دانوں میں ہوتی ہے کہ جن پر اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے باوجود کسی قسم کا کوئی الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ یعنی وہ ملک کے ایماندار سیاستدانوں کی صف اول میں جگہ رکھتے ہیں۔ سیاست دان چاہے جتنا بھی کمزور ہو لیکن چونکہ اسکا اٹھنا بیٹھنا عوام میں ہوتا ہے اس لیے وہ عوامی مسائل کو زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے ۔اسی لیے وزیر اعظم پاکستان محمد خاں جونیجو اور صدر مملکت ضیا ء الحق کے درمیان کشیدگی کی خبریں اخبارات میں پڑھنے کو ملنے لگیں۔پھر میرے ملک میں اوجڑی کیمپ والا ایک واقعہ ہوگیا اور اسکے کچھ ہی وقت بعد صدر پاکستان جنرل ضیا ء الحق نے اپنی تیار کردہ آئینی ترمیم کا استعمال کرتے ہوئے جو نیجو حکومت کو ختم کردیا ۔اسکے کچھ عرصے بعد جنرل ضیاء طیارہ حادثہ میں چل بسے۔ جنرل ضیاء کی شہادت کے بعد ملک میں جمہوریت کے نئے سفر کا آغاز ہوا۔ملک سے دور بے نظیر بھٹو پاکستان تشریف لائیں اور بھٹو کے چاہنے والو ںنے انہیں سر آنکھوں پر بٹھا لیا ۔اب صاف نظر آرہا تھا کہ انتخابات میں وہ بھاری اکثریت حاصل کر لیں گی لیکن پھر بھی مسلم لیگ اور دوسری پارٹیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو پارلیمنٹ میں اتنی مضبوطی نہ مل سکی جس کی شروع میں توقع تھی ۔بے نظیر بھٹو کی تعلیم و تربیت مغربی ملکوں میں ہوئی تھی اس لیے ان کا اردو بولنے کا لہجہ تھوڑا ہٹ کے تھا لیکن لوگوں نے اس لہجے کو بھی خوب پسند کیا ۔ملک میں ترقیاتی منصوبے تیار ہونے لگے کہ دو سال سے بھی کم عرصے میںصدر غلام اسحاق خان نے ان پر بدعنوانی کے الزامات لگا کے انکی حکومت کو برخاست کردیا۔نئے الیکشن ہوئے تو جنرل ضیا دور میں غیرجماعتی انتخابات کے ذریعے پانچ سال تک پنجا ب کے وزیر اعلی منتخب ہونے والے میاں نواز شریف1990 اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی کرتے ہوئے فاتح قرار پائے۔بعد میں یہ الزام لگا اور آج تک کہا جارہا ہے کہ انکی جیت کے پیچھے خفیہ ایجنسی کی محنت تھی۔بینظیر کے بعد نوازشریف حکومت کا بستر گول کرنے کا سہرا بھی غلام اسحاق خا ن کے سر رہا۔میاں نواز شریف نے گھر جانے کی بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کا صلہ انہیں یہ ملا کہ ان کی حکومت عدالت کے حکم پر بحال ہوگئی لیکن کچھ ہی وقت کے بعد وزیر اعظم اور صدر غلام اسحاق خان دونوں ایک معاہدے کے تحت مستعفی ہوگئے۔پھر الیکشن ہوئے اور بے نظیر بھٹو ایک بار پھر چاروں صوبوں کی بھر پور نمائندگی کرتے ہوئے ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔اس بار انہیں حکومت میں رہنے کا وقت پہلے سے کچھ زیادہ مل گیا۔یعنی دوسرا دور حکومت تین سال تک چلا اور ایک بار پھر وہ کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات پر اپنے منتخب کردہ صدر کے ہاتھوںایوان سے نکال دی گئیں۔ملک میں الیکشن ہوئے اور اس بار میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے پارلیمنٹ پہنچے۔انکے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے ابھی تکمیل کے مراحل میں ہی تھے کہ جنرل مشرف سے انکے اختلافات شروع ہوئے اور حالات کچھ ایسے بن گئے کہ جنرل مشرف نے ایک بار پھر ملک سے جمہوریت کا بوریا بستر گول کردیا اور وہ خود ملک کے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر بن گئے ۔