عظمت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ!!!!

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ وہ عظیم ہستی ہیں جو ایک خلیفہ، سپہ سالار، منتظم، مسلمانوں کے ہمدرد اور سب سے بڑھ کر خاتم الانبیاء تاجدارِ انبیاء حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کو بہت پیارے تھے۔ ایک فاتح اور حاکم کی حیثیت سے آپ نے ایسے ایسے عظیم کارنامے انجام دیے ہیں کہ دنیا آج بھی ان کی مثالیں دیتی ہے، آپ نے انصاف کے وہ اعلیٰ معیار مقرر کیے کہ آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک ان قوانین پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں امن و سکون پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ ظالموں کے لیے نہایت اور مظلوموں کے لیے نہایت نرم تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ امیر المومنین لگاتار روزے رکھتے تھے، وہ آدھی رات کے وقت نماز پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ ابو عثمان بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ رمی جمار کر رہے تھے انہوں نے جو چادر پہنی ہوئی تھی اس میں چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ عبداللہ بن عیسی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر خوف خدا میں روتے رہنے کی وجہ سے دو لکیریں پڑ گئی تھیں۔ حضرت داود بن علی کہتے ہیں حضرت عمر فاروق نے فرمایا اگر فرات کے کنارے ایک بکری بھی ضائع ہو گئی تو مجھے خوف ہے کہ اللہ مجھ سے اس متعلق سوال کرے گا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچتی تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ وقت تھے وہ خطبہ دے رہے تھے اور ان کے بہبند پر بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ یحییٰ بن کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر آسمان سے ایک منادی یہ ندا کرے کہ اے لوگو تم سب کے سب جنت میں داخل ہو جاؤ سوا ایک شخص کے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ ایک شخص میں ہوں گا اور اگر منادی یہ ندا کرے کہ اے لوگو تم سب کے سب دوزخ میں داخل ہو جاؤ سوا ایک شخص کے تو مجھے امید ہے کہ وہ ایک شخص میں ہوں۔
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن بیان فرماتے ہیں کہ عراق والوں میں سے کوئی شخص حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور فرمایا کہ میں آپ کے پاس ایک ایسے کام سے آیا ہوں جس کا نہ کوئی سر ہے نہ کوئی دم ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا وہ کیا ہے کہنے لگا ہمارے علاقے میں جھوٹی گواہیاں دینے کا رواج بہت ہو ہو گیا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کیا واقعی ایسا ہوا ہے اس نے کہا ہاں، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم عدل کے بغیر اسلام میں کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مثالیں بیان کی ہیں اور تمہارے لیے ایک قول بار بار دہرایا ہے تاکہ دل زندہ ہوں کیونکہ دل سینوں میں مردہ ہیں جب تک اللہ تعالیٰ انہیں زندہ نہ کرے جس نے کسی چیز کا علم حاصل کیا تو اسے اس علم سے نفع پہنچانا چاہیے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور کہا السلام علیکم یہ عبداللہ بن قیس ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت نہیں دی انہوں نے دوبارہ کہا السلام علیکم یہ ابو موسیٰ ہے، پھر کہا السلام علیکم یہ الاشعری ہے پھر واپس چلے گئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا انکو میرے پاس واپس لاؤ انہیں واپس لایا گیا جب وہ آئے تو حضرت عمر نے پوچھا اے ابو موسیٰ تم واپس کیوں چلے گئے ہم کام میں مشغول تھے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کو فرماتے سنا ہے کہ تم تین مرتبہ اجازت طلب کرو اجازت ملے تو ٹھیک ہے رونہ واپس چلے جاؤ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم اس حدیث پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزادوں گا۔ حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابو موسیٰ خوفزدہ حالت میں آئے اور کہا کہ میں نے تین مرتبہ اجازت طلب کی مجھے اجازت نہیں دی گئی تو میں واپس چلا گیا۔ حضرت عمر نے کہا تم کیوں چلے گئے میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ دی جائے تو وہ واپس چلا جائے۔ حضرت عمر نے کہا کہ اللہ کی قسم تم ضرور قس حدیث پر گواہی پیش کرو گے پس تم میں سے کوئی شخص ہے جس نے یہ حدیث سنی ہو حضرت ابی بن کعب نے کہا اللہ کی قسم مسلمانوں میں سے سب سے کم عمر شخص اس حدیث کی شہقدت دے گا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں سب سے کم عمر تھا میں ان کے کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور میں نے حضرت عمر کو خبر دی کہ بے شک نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس طرح فرمایا تھا۔
آج ہمیں عدل کی ضرورت ہے۔ انصاف کی ضرورت ہے، تحمل مزاجی اور صلہ رحمی کی ضرورت ہے۔ آج ملک میں جھوٹی گواہیاں عام ہیں۔ گواہی دینے والا جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے جو گواہی دلوا رہا ہے کہ وہ جھوٹ ہے جو گواہی سن رہا ہے وہ جانتا ہے کہ جھوٹ ہے اس کے باوجود سب ایک ہی راستے پر چلے جا رہے ہیں جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے عدل کے بعیر خوشحالی نہیں ہو سکتی۔ آج کے حاکموں کو دیکھ لیں ان کے لباس، رہن سہن، کھانا پینا، سفری سہولیات، طرز زندگی سب کچھ ملک کے نوے فیصد شہریوں سے مکمل طور پر مختلف ہے جب کہ دنیا کے سب سے بڑے فاتح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیوند لگے لباس کے ساتھ خطبہ دے رہے ہیں۔ ثابت ہوتا ہے کہ کامیابی کا معیار اچھا لباس، لگڑری گاڑیاں، محلات، پرتعیش کھانے یا جائیداد نہیں ہے۔ اللہ سے محبت، اللہ کے کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور خوف خدا ہی کامیابی کا معیار اور ضمانت ہے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا اور اللہ کی رضا کے لیے درگذر کرتے رہنا ہی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اعمل صالح اور امت مسلمہ کی خدمت کی توفیق عطاء فرمائے۔