بیداری اور غفلت کا جادو
یورپ میں نہانے کو کفر سمجھا جاتا تھا یورپ کے لوگوں سے سخت بو آتی تھی روس کے بادشاہ قیصر کی جانب سے فرانس کے بادشاہ لوئیس چہار دہم کے پاس بھیجے گئے نمائندے نے کہا ہے کہ فرانس کے بادشاہ کی بدبو کسی بھی درندے کی بدبو سے زیادہ متعفن ہے اس کی ایک لونڈی تھی جس کا نام مونٹیا سبام تھا جو بادشاہ کی بدبو سے بچنے کے لئے اپنے اوپر خوشبو ڈالتی تھی دوسری طرف خود روسی بھی صفائی پسند نہیں تھے مشہور سیاح ابن فضلان نے لکھا ہے کہ روس کا بادشاہ قیصر پیشاب آنے پر مہمانوں کے سامنے ہی کھڑے کھڑے شاہی محل کی دیوار پر پیشاب کرتا ہے چھوٹے اور بڑے پیشاب دونوں کے بعد کوئی استنجا نہیں کرتا ایسی گندی مخلوق میں نے نہیں دیکھی اندلس میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والی ملکہ ایزابیلا ساری زندگی میں صرف دو بار نہائی اس نے مسلمانوں کے بنائے ہوئے تمام حماموں کو گرا دیا ۔ اسپین کے بادشاہ فلیپ دوم نے اپنے ملک میں نہانے پر مکمل پابندی لگا رکھی تھی اس کی بیٹی ایزابیل دوئم نے قسم کھائی تھی کہ شہروں کا محاصرہ ختم ہونے تک داخلی لباس بھی تبدیل نہیں کرے گی اور محاصرہ ختم ہونے میں تین سال لگے اسی سبب سے وہ مرگئی یہ ان کے عوام کے نہیں بادشاہوں اور حکمرانوں کے واقعات ہیں جو تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں جب ہمارے سیاح کتابیں لکھ رہے تھے جب ہمارے سائنس دان نظام شمسی پر تحقیق کر رہے تھے ان کے بادشاہ نہانے کو گناہ قرار دے کر لوگوں کو قتل کر تے تھے پھر ہمیں ان کے بادشاہوں جیسے حکمران ملے تو حال دیکھیں جب لندن اور پیرس کی آبادیاں 30 اور40 ہزار تھیں اس وقت اسلامی شہروں کی آبادیاں ایک ایک ملین ہوا کرتی تھیں فرنچ پرفیوم بہت مشہور ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ پرفیوم لگائے بغیر پیرس میں گھومنا ممکن نہیں تھا ریڈ انڈین یورپیوں سے لڑتے ہوئے گلاب کے پھول اپنی ناک میں ٹھونس دیتے تھے کیوں یورپیوں کی تلوار سے زیادہ ان کی بدبو تیز ہوتی تھی فرانسیسی مورخ دریبار کہتا ہے کہ ہم یورپ والے مسلمانوں کے مقروض ہیں انہوں نے ہی ہمیں صفائی اور جینے کا ڈھنگ سکھایا انہوں نے ہی ہمیں نہانا اور لباس تبدیل کرنا سکھایا جب ہم ننگے دھڑنگے ہوتے تھے اس وقت وہ اپنے کپڑوں کو زمرد یا قوت اور مرجان سے سجاتے تھے جب یورپی کلیسا نہانے کو کفر قرار دے رہا تھا اس وقت صرف قرطبہ شہر میں 300 عوامی حمام تھے پھر وقت پلٹ گیا اور وہ ہم سے ہماری سائنس ہمارا علم ہماری ترقی کے راز لے گئے ہمیں بدلے میں احساس کم تری دے دی ہمیں فیشن نامی لفظ کے ساتھ بے ہودگی دے دی ہمیں ماڈرن بنانے کے نام پر بے حیائی دے دی ہم نے ان کی دی ہوئی ہر اس پراڈکٹ کا ویلکم کیا جس سے ہم بری طرح تباہ ہو سکتے تھے انہوں نے ہمیں آزادی کا نام اور ساتھ غلط تعبیر یں دے دیں ہم نے اپنے نصابوں میں بغاوت کے اصولوں کو آزادی کے اصول قرار دے کر پڑھا نا شروع کردیا پھر ایسا ہوا کہ ہم نے عیاشی کو کامیاب زندگی سمجھنا شروع کردیا پھر ایسا ہوا کہ وہ چاند پر جارہے تھے،وہ مریخ کا سفر کر رہے ہیں ، انہوں نے سمندر میں پیٹرول کے ذخائر بنانے شروع کر دئیے ہم نے پیٹرول سے جلاؤ گھیراؤ آگ لگا ؤ تحریکیں چلانا شروع کردیںانہوں نے ادب میں ایسے شاہکار تخلیق کرنے شروع کیئے جو افکار بدل دیں انہوں نے قرآن کو اپنی لیبارٹری کا حصہ بنا لیا اور ہم نے اچھے قیمتی غلاف بنانا شروع کردئیے اور طاق کی سجاوٹ کے مقابلے شروع کردئیے پھر ہوا یوں وقت نے پلٹا کھایا انہوں نے ممالک فتح کرنا شروع کردئیے‘ انہوں نے حضرت عمر فاروقؓ کی سادگی اپنا لی ہم نے عیاشی اپنالی اور آج ہماری کیفیت یہ ہے کہ یو رپ میں ترقی اور انسانی فلاح و بہبود کی بیداری اور ہمارے یہاں انسانیت کی پامالی بد اخلاقی اور کرپشن کا جاد و سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔