مولانا صدیق الحسن طاہر کی قابل رشک خدمات
معروف دینی ،علمی،شخصیت مرکزی جامع مسجد ریڑہ کے خطیب حضرت مولانا صدیق الحسن طاہر انتقال فرما گئے۔ عمر ستر برس تھی اور گزشتہ دنوں نماز ظہر ادا کر رہے تھے کہ تشہد میں بیٹھے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، انتقال کی خبر باغ اور شرقی باغ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور عوام الناس کی ایک کثیر تعداد ان کے گاؤں اکھٹا ہونا شروع ہو گئی ۔ان کا تعلق ملدیال برادری سے تھا ۔ریڑہ کے جنوبی حلقے سمنی گاؤں میں قیام پذیر تھے ۔ اپنی پانچویں نسل تک خطیب رہے ،اور چھٹی نسل سے آگے ان کے بیٹے مولانا مفتی ثاقب صدیق مرکزی جامع مسجد ریڑہ کے خطیب مقرر ہوئے۔اور دوسرے بیٹے عابد صدیق بھی مسجد کے ساتھ منسلک ہیں۔اور اپنی دینی خدمات کا سلسلہ جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں ۔اور اس طرح ان کے آباء و اجداد نے دین اسلام کی تبلیغ اور خدمات کے لئے جو پرچم لے کر نکلے تھے آج بھی وہ پرچم ان کے خاندان نے بلند کیا ہوا ہے۔اور خدمات جاری و ساری ہیں۔مرحوم کے آباء و اجداد نے مولانا محمد زمان،میاں حبیب اللہ،قاضی کشمیر قاضی احمد دین ،مولانا محمود الحسن،اور صدیق الحسن اور اب مفتی عالم فاضل ثاقب صدیق جو کہ ریڑہ میں ایک بڑی تقریب میں خطیب کی دستار بندی کی گئی اس طرح چھٹی نسل بھی امامت اور خطابت کے لئے مقرر ہو گئی۔میاں حبیب اللہ بھی عالم با عمل تھے جبکہ قاضی احمد دین آزاد کشمیر کے پہلے قاضی تھے جنہوں نے درس و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کر کے دین اسلام کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔محم،د زمان میاں حبیب اللہ ،قاضی احمد دین ،مولانا محمود الحسن کی وفات بھی نماز کے عین وقت پر ہی ہوئی ،کوئی سجدے میں تھا تو کوئی نماز کا وضو کر رہا تھا تو کوئی تشہد میں بیٹھا تھا۔اس طرح مفتی کشمیر قاضی احمد دین کا شمار آزاد کشمیر و پاکستان کے چند بڑے جو نام ہیں ان میں ان کا شمار ہوتا تھا۔قاضی احمد دین مشہور بزرگ صوفی بابا فریدالدین گنج شکر کے پیر بھائی تھے۔پاکستان کے مدرسوں سے اپنی تعلیمات حاصل کر کے انہوں نے آزاد کشمیر میں دین کی شمع کو فروزاں کیا۔ڈوگرہ دور میں جب ان کے انہوں نے اسلام اور دین کا کام شروع کیا تو ان کے لئے مشکلات بھی تھیں لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور وسائل،پیسہ ٹکہ روزی روٹی کی پرواہ کئے بغیر انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور باغ پونچھ اور مقبوضہ پونچھ میں دین کی تبلیغ کر کے اپنے مشن کو جاری و ساری رکھا،جس میں ان کو کامیابی و کامرانی و سرفرازی نصیب ہوئی۔مقبوضہ پونچھ شہر میں 1947 سے پہلے میاں حبیب اللہ اور قاضی احمد دین گئے تو اُسوقت کے وزیر وزیر کسٹوڈین خواجہ عبداللہ جون نے اپنے گھر بلایااور کہا کہ حضرت میری اہلیہ بیمار ہیں برطانیہ سے بھی علاج کروایا،ٹھیک نہیں ہوئیں،آپ کچھ حیلہ چارہ کر سکتے ہیں تو کریں۔میاں حبیب اللہ قاضی احمد دین نے کہا کہ ہم دعا بھی کرینگے اور کچھ حیلہ سازی بھی کرینگے۔اللہ کا کرنا کچھ ایسے ہی تھا کہ وزیر کی اہلیہ ٹھیک ہو گئیں تو وزیر نے مقبوضہ پونچھ شہر میں 42 کنال زمین قاضی صاحب اور میاں حبیب اللہ صاحب کو حبہ کر کے دے دی۔آج بھی وہ زمین مقبوضہ وادی میں ہے۔محمد زمان خان سری منگ رہتے تھے ۔آپ راجی کے دور میں میاں حبیب اللہ اور محمد زمان خان شہر پونچھ گئے ۔دین اسلام کے مشن پر اور اپنا کام کاج بھی تھا ،تو مہاراجہ نے کہا کہ مولانا آپ جلدی جایا کریں ویران مشکل اور کٹھن راستہ ہے تولی پیر کی گلی میں ڈاکو آپ کو لوٹ لیں گے۔سری منگ کا یہ راستہ بھی خطرناک ہے تو میاں صاحب مسکرا کر بولے کہ میں بھی سری منگ میں رہتا ہوں،ہمیں نہ تو کوئی لوٹے گا اور نہ ہمیں کوئی خطرہ ہے ۔اپنے قارئین کے لئے یہ بھی بتاؤں کہ قاضی احمد دین ڈوگرہ دور میں متحدہ پونچھ کے قاضی تھے اور علمی لحاظ سے ان کا ایک بڑا مقام تھا ۔جدوجہد آزادی میں بھی علماء کی تحریک کے ایک بڑے ذمہ دار رہنما تھے ،اور اس طرح انہوں نے جدوجہد آزادی کشمیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔1947 سے قبل جس مسجد و مدرسیکی بنیاد رکھی گئی تھی آج وہ مسجد اور مدرسہ ایک بڑا اور تاریخی مرکز بن گیا ہے جو کہ یادگار اسلاف کی یاد دلاتا ہے۔ صدیق الحسن اپنے گاؤں سمنی کے واحد نکاح خوان ،امام اور خطیب تھے۔جنہوں نے عوام کو ہمیشہ جوڑے رکھا ،تقسیم نہیں ہونے دیا،نہ فرقوں میں ،نہ گروہ میں کبھی تقسیم نہیں ہونے دیابلکہ ہمیشہ جوڑے رکھا۔کبھی اختلافی بیان نہیں کیا نہ کبھی اختلافی بات کی۔سب علماء کو ساتھ لے کر چلنے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔سمنی میں ان کے بزرگوں کی قبریں موجود ہیں ،میاں محمد زمان کی قبر مبارک سری منگ میں ہے جبکہ میاں حبیب اللہ ،قاضی احمد دین،محمود الحسن،صدیق الحسن طاہر کی قبریں سمنی میں ہی موجود ہیں۔ ایک قبر سے تین درخت قدرتی طور پر پیدا ہوئے جو کہ سامنے نظر آرہے ہیں،کسی نے نہ تو یہ لگائے اور نہ کسی کو لگاتے دیکھا بلکہ از خود رب العزت اور اللہ کے فضل و کرم سے پیدا ہوئے ان میں ایک درخت انجیر،ایک مالٹا اور ایک لوکات ہیں جب کہ چنبیلی بھی خود پیدا ہوئی۔یہ بھی قدرت کی ایک نشانی ہے۔ہر سال یہاں پر اپریل کے وسط میں دعائیہ تقریبات ہوتی ہیں ،علماء و مشائخ کا خطاب ہوتا ہے اور لنگر تقسیم ہوتا ہے لیکن بزرگوں نے منع فرمایا تھا کہ ہماری قبروں پر مزارات تعمیر نہ کریں،کچی ہی رہنے دیناکیونکہ اس طرح عقیدے کمزور ہوتے ہیں۔لیکن باوجود اس کے پھر بھی عقیتمند کسی کی پرواہ کئے بغیر لنگر بھی دیتے ہیں اور حاضریہ بھی دیتے ہیں۔یہ بھی بتایا گیا کہ آج بھی ان کی قدیمی قبروں سے فیض جاری ہوتا ہے ۔دیگر بھی درجنوں قسم کی کرامات ہیں اس خانوادے کی۔لیکن منع فرمایا گیا کہ یہ کرامات نہ ہی ظاہر ہوں تو بہتر ہے ۔بزرگ لوگ جو جہاں مدفن ہیں یہ سارے عالم فاضل اور کچھ دیوبند مدرسہ جو بھارت میں ہے وہاں سے پڑھے لکھے اور فارغ التحصیل ہیں کچھ پاکستان کے چند بڑے مستند دارلعلوم ہیں وہاں سے علم حاصل کیا ۔مولانا صدیق الحسن کے آباء و اجداد کی جہاں پر دین اسلام کی خدمات نمایاں ہیں وہاں پر سیاسی،سماجی،اور دیگر زندگی کے شعبہ میں ان کی خدمات اہم ہیں۔مولانا ایک ہنس مکھ،سادہ لباس،سادہ زندگی مہمان نوازیاور اپنے رشتوں کی خبر گیری کرنا،جنازوں پر واعظ و تقریر ،شاعری پڑھنا۔مرنے سے پہلے موت کی تیاری کا پیغام دینا،نماز قائم کرنا اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں خوب سمجھایا کرتے تھے۔مولانا کے دادا قاضی احمد دین ایک نامور شخصیت تھے ،متحدہ پونچھ کے قاضی ہونے کی وجہ سے اُسوقت کی مسلم لیڈر شپ کے ساتھ ان کا اُٹھنا بیٹھنا اور گپ شپ ہوتی تھی۔یہ بھی پتہ چلا کہ درجنوں غیر مسلم کو مسلمان کیا اس طرح جس نے اللہ کے ساتھ محبت کی ،احکام کی پیروی کی اللہ مھبت کرنے والوا¡ کے ساتھ محبت کرتا ہے اور اللہ اپنی محبت کو چھپنے نہیں دیتا بلکہ سامنے لے آتا ہے اور پھر جس سے اللہ محبت کرتا ہے وہ کامیاب وکامران بن جاتاہے اور سرفراز بن جاتا ہے۔اگرچہ مولانا صدیق الحسن طاہر ہم میںموجود نہیں ہیں لیکن ہمیں وہ سب کچھ یاد ہے ذرا ذرا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا صدیق الحسن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔مولانا کا نماز جنازہ حلقہ شرقی باغ کا بڑا عوامی اجتماع تھا۔