ہفتہ‘ 29 ؍ جمادی الاول 1441ھ ‘ 25 ؍ جنوری2020 ء

6ماہ میں 96ارب روپے کے سمارٹ فون درآمد کئے گئے
ایک طرف بد حالی کا یہ حال ہے کہ ملکی معیشت کا گراف مسلسل نیچے گر رہا ہے تو دوسری طرف نمود و نمائش کی یہ حالت ہے کہ ہم دھڑادھڑ سمارٹ موبائل فون درآمد کر رہے ہیں۔ اگر سمارٹ فون کو ملکی خوشحالی اور قومی ترقی کا سمبل مان لیا جائے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعی ملک ترقی کر رہا ہے۔ہماری معیشت بہتری کی طرف اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہیں۔ 6 ماہ میں اتنی بڑی تعداد میں اتنی مالیت کے سمارٹ فون درآمد کرنے کی شرح ماضی کے مقابلے میں 105 فی صد زیادہ ہے۔ اس رپورٹ سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک غریب اور معاشی طور پر حقیقت میں بدحال ملک کے عوام کس بری طرح اس سمارٹ فون کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔اگر ہمیں امداد اور قرضہ دینے والے وہ ممالک جن کے آگے ہم مسکین صورت بنا کر ان سے امداد اور قرضے مانگتے ہیں سمارٹ فونز کی یہ طلب دیکھ لیں تو وہ ہمیں دروغ گو قرار دے کر قرضوں اور امداد سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ جو لوگ یہ سمارٹ فونز خریدتے ہیں ان میں سے اکثریت شوقیہ اسے پاس رکھتی ہے تاکہ دوسروں پر انکی امارت کا رعب پڑے۔ اسی زعم میں لاکھوں کنگلے اور قلاش بھی سمارٹ فون تھامے نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے شوقین نوجوان ہی ڈکیتی اور چوریوںمیں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اتنی رقم ان کے پاس ہوتی نہیں تو وہ لوٹ مار شروع کر دیتے ہیںکیونکہ سمارٹ فون خریدنا عام آدمی کے لئے آسان نہیں۔
٭…٭…٭
انکم سپورٹ سے امداد لینے والے 8لاکھ جعلساز وزیراعظم ہیلتھ انشورنس کارڈ بھی لیتے ہیں
اسے کہتے ہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹنا۔ ہمارے ہاں اسی لئے تو ’’لٹ‘‘ مچی ہوئی ہے۔ جس کا جہاں دائو لگتا ہے وہ دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ جانور تک کسی اصول اور قانون کے پابند ہیں مگر ہم حضرت انسان خود کو ہر قانون اور اصول سے مستثنیٰ خیال کرتے ہیں۔ جانوروں کا پیٹ بھر جائے تووہ شکار نہیں کرتے خوراک پر قبضہ نہیں جماتے۔ اسے چھوڑ دیتے ہیں مگر ہم پیٹ بھرنے کے بعد بھی ہر چیز سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابھی تک لوگ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگوں کی لوٹ مار کی خبریں پڑھ کر سکتے کے عالم میں تھے کہ اب یہ نئی دھماکہ خیز خبر ہمارے اخلاقی دلیوالیہ پن کو بے نقاب کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے غریبوں کے لئے صحت انشورنس کارڈ متعارف کرائے۔ تاکہ غریب غربا علاج معالجے کے لئے اس سے فائدہ اٹھائیں مگر ہمارے کھاتے پیتے لوگوں نے اس پروگرام میں بھی دائو لگایا اور 8لاکھ ایسے جعلسازوں نے یہاں بھی انٹری ڈالی جو پہلے ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی گنگا میں ڈبکیاںلگاتے پھر رہے تھے۔ اب وہ ہیلتھ انشورنس کی جمنا میں بھی تیرتے پائے گئے ہیں۔ اب وزارت صحت نے ان جعلسازوں کے نام نکلوا لئے ہیں اور ان سے لی گئی رقم واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ خدا کرے حکومت اس میں واقعی کامیاب بھی رہے۔ ان سب کے نام او رتصاویر اخبارات میں میڈیا پر سامنے لائی جائیں۔
٭…٭…٭
وزرا اخبار پڑھیں نہ ٹی وی نہ دیکھیں‘ وزیراعظم
واہ کیا لاجواب نسخہ دریافت کیا ہے ہمارے حکمرانوں نے۔ عوام کے مسائل اور ابتر ملکی حالات سے نجات کا دروغ برگردن راوی اس سے اچھا مشورہ شاید ہی کوئی اور دے سکے۔ اس طرح واقعی وزیروں اور مشیروں کے دن رات سکون سے بسر ہونگے اور سب…؎
ہر دن ہووے ساڈا عید ورگا
ہر رات ساڈی شبرات ہووے
کا مزہ لوٹ سکیں گے۔ یہ میڈیا یا ہی تو ہے جس نے ادھر ادھر کی خبریں سنا کر دکھا کر عوام کا موڈ خراب کر رکھا ہے۔ اور وہ وقت بے وقت حکمرانوں کو حکومت کو کوستے رہتے ہیں۔ ورنہ اگر میڈیا اپنا قبلہ درست کرلے اور ہر وقت ’’سب ٹھیک ہے ‘‘ کا راگ الاپنے لگے تو وزیراعظم خود وزیروں اور مشیروں کو حکم دے سکتے ہیں کہ وہ اخبار بھی پڑھیں۔ اور ٹی وی بھی دیکھیں۔ ویسے بھی اب مہنگائی کساد بازاری۔ کرپشن یوٹیلٹی بلوں اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کوئی بڑی اہم خبر نہیںرہی ۔ قتل‘ ڈاکے۔ اغوا بھی اب عام خبر بن چکے ہیں۔ تو کیا ضرورت ہے وزیروں اور مشیروں کو یہ پڑھ کر یا دیکھ کر پریشان ہونے کی۔ یہ تو نظام زندگی ہے یونہی چلتا آیا ہے۔ یونہی چلتا رہے گا۔ اس لئے تو کسی مستقبل شناس قسم کے شاعر نے کیا خوب کہا تھا…؎
یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے
لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا
کیا واقعی اب یہی حالت ہمارے ہاں بھی درپیش ہے کہ لکھے کو آگ لگا دی جائے اور قلم کو توڑ دیا جائے۔ کیونکہ جب کسی نے دیکھنا نہیں پڑھنا نہیں تو فائدہ کیا سچ لکھنے کا اور دکھانے کا۔
٭…٭…٭
نامکمل ہوم ورک پر بھارت میں کم سن طالبہ کو 450 مرتبہ اٹھک بیٹھک کی سزا دینے والی ٹیچر گرفتار
شکر ہے ہمارے ہاں اب مار نہیں پیار کا سنہری اصول کار فرما ہے۔ ورنہ ساڑھے چارسو اٹھک بیٹھک لگانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ اس ظالم استانی کو ترس بھی نہیں آیا اس پھول جیسی بچی پر۔ کیا اس کے اپنے بچے نہیں ہیں یا وہ گھر سے لڑ کر آتی تھی کہ اس نے ایسا وحشیانہ سلوک کیا اپنی کمسن طالبہ سے۔ بچیاں پڑھنے کیلئے سکول آتی ہیں ڈنڈ نکالنے کیلئے نہیں۔ اس کام کیلئے اکھاڑے موجود ہیں۔ ممبئی میں بھی بے شمارا اکھاڑے موجود ہیں۔ اب اس ٹیچر کو سزا کے ساتھ ساتھ کسی لیڈیز اکھاڑے میں روزانہ اسی کسرت کیلئے بھیجا جائے۔ نامکمل ہوم ورک ایسا کوئی بڑا گناہ نہیں۔ لڑکیوں کے ہزاروں مسائل ہوتے ہیں۔ گھرداری، مہمان داری بھی ان میں شامل اس وجہ سے یا بیمار ہونے کے سبب بھی سکول کا کام ادھورا رہ سکتا ہے۔ اس پر اتنی بڑی سزا واقعی جرم ہے۔ اب کم سن بچی نجانے کتنے دن اذیت میں مبتلا رہے گی۔ اچھا خاصہ نوجوان بھی سو سے زیادہ ڈنڈ پیلے تو اسکی ٹانگیں شل ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہ سزا عام ہے مگر اس طرح ساڑھے چار سو مرتبہ کی سزا کا خیال شکر ہے ہمارے ظالم ٹیچروں کو نہیں آیا۔ آنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ ممبئی کی یہ ٹیچر اب گرفتار ہے اور اسے اپنے کئے کی سخت سزا بھی اسے ملے گی۔ ہمارے ہاں بھی ایسا کرنے والوں کو قانون نہیں چھوڑے گا لہٰذا سنگدل ٹیچرز خبردار ہیں اور ایسی کوئی حماقت نہ کریں۔ جس پر بعد میں پچھتاوا ہو ۔