بلوچستان میں تبدیلی مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے ارکان اسمبلی کی کوششوں سے آئی: راجہ بشارت
راولپنڈی (رپورٹ: سلطان سکندر/ تصویر: ایم جاوید) پنجاب کے سابق وزیر قانون اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما محمد بشارت راجہ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں تبدیلی کسی اشارے کی بجائے خود مرکز میں برسراقتدار مسلم لیگ ن اور جے یو آئی (ف) کے ارکان اسمبلی کی کوششوں سے آئی اور مسلم لیگ ق کے عبد القدوس بزنجو 5 ارکان کے ساتھ اپنی سیاسی حکمت عملی کے باعث وزیراعلیٰ بن گئے تو ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا چاہئے‘ بلوچستان میں حکومتی تبدیلی کے دوررس اثرات مرتب ہو سکتے تھے لیکن اب اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں وقت کم رہ گیا ہے اور ایوان کے اندر عدم اعتماد کے ذریعے سیاسی تبدیلی ممکن نہیں لگتی‘ جولائی 2018ء میں انتخابات ہونا ہیں الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہوتے ہی مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد اور صف بندی سامنے آ جائے گی‘ مسلم لیگ ق کے ساتھ الیکٹ ایبل سیاستدانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے جو عام انتخابات میں موثر کردار ادا کریں گے۔ بدھ کے روز یہاں ایوان وقت میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف اگلے الیکشن سے زیادہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنی کمزوریوں‘ کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے اور عوام میں وجود کو قائم رکھنے کے لئے کوشاں ہیں‘ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام آئینی اداروں سے کھلی محاذ آرائی اور تصادم کا راستہ اختیار کرنے کی وجہ ظاہر ہے انہیں نوشتہ دیوار نظر آ رہا ہے کہ وہ احتساب عدالتوں میں سزا سے نہیں بچ سکتے اس لئے وہ فیس سیونگ کے لئے اپنے تمام تر حالات کی ذمہ داری عدالتوں پر ڈال کر خود ہزیمت سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت اتنی کمزور اور غیر موثر ہو چکی ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنے خلاف سازش کی بات کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ کون سازش کر رہا ہے۔ بہ بدقسمتی ہے کہ ادارے بلاشرکت غیرے حکومت کے ماتحت ہونے کے باوجود آج حکومت اپنی نااہلی کے باعث ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے‘ آج احتساب بیورو اگر گزشتہ چار پانچ سال کی کرپشن کی نشاندہی کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ حکومت نے اس بارے میں آنکھیں بند کر رکھی تھیں اس لئے اداروں کے مقابلے میں حکومت بیکار ثابت ہوئی ہے‘ ادارے مقابلتاً فعال اور پروایکٹو ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 17 جنوری کو مال روڈ لاہور کا احتجاجی جلسہ حکومت کے خاتمے کے لئے نہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے چودہ شہداء کے قصاص اور انصاف کے لئے تھا۔ سانحہ قصور پنجاب حکومت کی گڈ گورننس کے دعوؤں پر سوالیہ نشان ہے حکومت عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی ہے اس لئے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں فی الحال کیئر ٹیکر حکومت کے آنے کی بات حتمی طورپر نہیں کہی جا سکتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے وہ عوام کا اعتماد اور اپنا جواز کھو چکی ہے گورننس ختم ہو چکی ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ مریم نواز کا اپنا سیاسی کردار ہے۔ پرویز رشید‘ نواز شریف فیملی کے اتنے قریب ہیں کہ چودھری نثار علی خان کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ ان کے بارے میں بیانات اپنے طورپر دے رہے ہیں یا قیادت کی اشیرباد سے‘ اگر یہ اشیرباد سے ہو رہا ہے تو چودھری نثار کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ چودھری نثار کی نواز شریف سے طویل رفاقت کا تقاضا ہے کہ اگر کسی وقت اختلاف رائے ہو جائے تو قیادت کا نکتہ نظر تسلیم کرنا چاہئے‘ قیادت سے محاذ آرائی میں بیان دے کر پھر یہ توقع کرنا کہ قیادت نظرانداز کرے گی سیاسی اقدار کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کو معروضی حالات کو سامنے رکھ کر ہی ملک واپسی کا فیصلہ کرنا ہو گا۔