وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اپریشن ردالفساد اور اپریشن ضرب عضب امریکہ کیلئے ہیں نہ اسکے کہنے پر شروع کئے۔ ہم اپنے وسائل سے دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس میں کوئی مدد نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے باور کرایا کہ امریکہ نے امداد روکی یا ہم پر پابندیاں لگائیں تو دہشت گردوں سے اسے خود ہی لڑنا پڑیگا۔ اب ڈومور کی کوئی گنجائش نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں پاکستان نے بے لوث کردار ادا کیا اور اسکے ردعمل میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور خودکش حملوں میں نیٹو ممالک کے مجموعی جانی اور مالی نقصان سے بھی زیادہ نقصان اٹھایا۔ پوری دنیا پاکستان کے اس کردار اور قربانیوں کی معترف ہے۔ اگرچہ واشنگٹن اور پینٹاگون کی جانب سے بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جاتا رہا ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کے کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس سے ڈومور کے مسلسل تقاضے کئے جاتے رہے جبکہ اب امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے تو پاکستان کے ساتھ عملاً دشمنی والا طرز عمل اختیار کر لیا ہے جسے امریکی صدر ٹرمپ نے خود سنگین نتائج اور اسکی امداد کم کرنے اور روکنے کی نہ صرف دھمکی دی بلکہ اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ اسکے برعکس ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے روائتی دشمن بھارت پر نوازشات کی بارش کر دی اور افغانستان میں امن کیلئے کردار کے نام پر اسے عملاً علاقے کا تھانیدار بنا دیا جس کے زعم میں بھارت آئے روز ہماری سلامتی اور خود مختاری کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے جبکہ اسی افغان سرزمین کو وہ پاکستان پر دہشت گردی کیلئے استعمال کر رہا ہے جہاں امن کی بحالی کیلئے امریکہ نے اسے کردار سونپا ہے۔ اس سے بڑی ریاکاری اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ افغانستان میں امن کیلئے ڈومور کے تقاضے پاکستان سے کئے جا رہے ہیں اور دفاعی جنگی سازوسامان کے معاہدے بھارت سے کئے جا رہے ہیں جس کا افغان جنگ سے کبھی کوئی سروکار ہی نہیں رہا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان افغان جنگ سے ہاتھ کھینچ لے تو امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کی فورسز کو افغانستان میں لینے کے دینے پڑ جائیں۔ اس تناظر میں پاکستان امریکہ کی ضرورت ہے جسے ناراض کرنے کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ پاکستان خود بھی امریکہ کے ساتھ 70 سال سے جاری تعلقات میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتا تاہم اس سے یہ مراد نہیں کہ ہمیں اپنے مفادات کی جنگ میں مرغ دست آموز سمجھ لیا جائے۔ وزیراعظم شاہد خاقان نے اسی تناظر میں امریکہ کو باور کرایا ہے کہ اس نے ہم پر پابندیاں لگائیں تو اسے افغان جنگ خود ہی لڑنا پڑیگی۔ ٹرمپ انتظامیہ کو حقائق کا ادراک کرنا چاہئے اور افغانستان میں امن کی بحالی مقصود ہے تو بھارت کی سرپرستی ترک کر دینی چاہئے۔ پاکستان کو بہرصورت اپنی سلامتی اور خودمختاری اتنی ہی عزیز ہے جتنی امریکہ کو اپنی سلامتی اور خود مختاری عزیز ہو سکتی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024