عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ارشاد فرمایا کہ وہ معرفت کے سفر پر رواں دواں ہیں۔ انہیں ابن عربی اور مولانا رومی سے خاص شغف ہے۔ ان دونوں ہستیوں کے ’’رموز تصوف‘‘ اور ’’روحانی سلوک‘‘ کے مقام ومرتبہ سے انہیں بشریٰ بی بی نے آگاہ کیا اور آج تک وہ جتنے بھی’’ماہرین روحانیت‘‘ سے ملے ہیں۔ بشریٰ بی بی کا مقام ان سب سے بڑھ کر ہے۔ طریقت، معرفت، سالک اور صوفی کے مقام و مرتبہ پر بات کرنا میرے جیسے کم علم کے بس کی بات نہیں مگر باوثوق اور پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب علم ابن عربی کو سمجھتا ہے اور اسکے مخفی علوم سے نہ صرف آگاہی رکھتا ہے بلکہ کسی حد تک اسکی مدد سے مخلوق خدا کی ناآسودہ تمنائوں کو اللہ کی محبت سے ہمکنار کرنے کی کوشش میں امید کی شمع روشن کئے رکھتا ہے تو وہ ہیں پروفیسر احمدرفیق اختر۔ اگر عمران خان ابن عربی کو حروف مقطعات کے متعلق علم کی شد بد پروفیسر احمد رفیق اختر سے نہیں سمجھی تو پھر بشریٰ بی بی کو کیا پتہ ابن عربی کون سے مرض کی دوا ہیں؟ ابن عربی اور مولانا رومی کا مقام طریقت سمجھنا اور اپنی ذات کو عشق حقیقی میں سمونا ہم جیسے عامیوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر ہم غالب کے مقام روحانیت کو جان پائیں تو بس یہی غنیمت ہے۔ کچھ عرصہ بیشتر معروف اور انسان دوست ماہر نفسیات ڈاکٹر مؤدت رانا نے مجھے غالب کے اس شعر پر تبصرہ کرنے کو کہا…؎
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
سچی بات ہے میں نے اس وقت اس شعر کے حرف سطحی مفہوم کو سمجھا کہ یہ دنیا انسان کی تمام تر خواہشات کو سیر شدہ نقطہ (POINT OF SATIETY) فراہم کرنے سے قاصر ہے یعنی اگر کسی بھی انسان کی ایک خواہش پوری ہو جائے تو اسکی جگہ دوسری خواہش لے لیتی ہے یعنی خواہشات لامتناہی ہوتی ہیں جس پر غالب کو کہنا پڑا…؎ ’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے‘ مگر جب ہم غالب کے اس شعر کو گہرائی میں دیکھتے ہیں تو واقعی غالب کا دعوی درست دکھائی دیتا ہے۔…؎
یہ مسائل تصوف، یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب جب کہتا ہے کہ ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا تو میرے ناقص علم کے مطابق وہ رومی کے ہم پلہ کھڑا نظر آتا ہے۔ یہ دنیا جو بھرپور امکانات کے ساتھ ہمیں سامنے کھڑی دکھائی دیتی ہے جہاں ہر چیز کے حقیقت بننے کا جواز اور دلیل موجود ہے مگر اے خدا اس جہاں کے علاوہ کچھ اور بھی ہے جو ہمارے تخیل کی قوت پرواز سے بالاتر ہے جو ایک جغرافیائی دنیا ہے یہاں غالب خدا سے سوال کرتا ہے کہ یہ دنیا تو تمنا کا پہلا قدم ہے ذرا بتا تمنا کا دوسرا قدم کہاں ہے۔ غالب کا ایک مصرعہ…؎ ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘
اسکا جواب وحدت الوجود میں ملتا ہے۔ فلسفہ وحدت الوجود کو خدا کے سوا اور کسی چیز کا وجود نہیں، ہمہ اوست جو کچھ ہے وہ خدا کی ذات کا مظہر ہے۔ اکثر مجذوب صوفیوں نے لاالہ الااللہ کی بجائے لاموجوداللہ لاموثرفی الوجود الااللہ یعنی اللہ کے سوا کچھ موجود نہیں اور ہر وجود میں جو موخر حقیقت ہے وہ خدا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جذب و ستی میں جنون کی کیفیات کے زیراثر منصور حلاج اناالحق پکارتے ہوئے پھانسی چڑھ جاتا ہے۔ سرمد سرمست کو بھی اہل مذہب کے فتوئوں کے باعث جان دینی پڑی۔ اہل شریعت کے باعمل مسلمانوں نے سوال اٹھایا کہ جب خدا کے سوا اور کوئی موجود نہیں تو عابد اور معبود کا فرق مٹ جاتا ہے اور پھر کسی معبود کی پرستش کی جائیگی جس پر غالب خود بھی گھبرا کر پکار اٹھتا ہے۔ …؎
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
مولانا جلال الدین رومی 13ویں صدی کے ایک مذہبی سکالر تھے مگر جب انہیں شمس تبریز ملے تو وہ ایک فقیہ سے صوفی بن گے انہوں نے خدا کی ہستی کو روح الارواح قرار دیا۔ ایک انسان کا وہ پہلو جو عالم خلق سے تعلق رکھتا ہے اس کے لحاظ سے انسان مخلوق ہے اسکی زندگی کے تمام افعال ومظاہروحوادث میں مخلوق ہیں جن کا خالق بالواسطہ یا بلاواسطہ خدائے خلاق ہیں چونکہ روح کی ماہیت مظہر الوہیت ہونے کی وجہ سے ماورائے زمان ومکان ہے لہٰذا روح انسانی کی حقیقت مخلوق نہیں ہے جو مولانا رومی روح انسانی کو بانسری سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن یہ نَے ایک لامحدود نیتاں سے الگ ہوئی ہے انکے خیال میں عالم ارواح ایک ایسا عالم ہے جس میں وحدت بھی ہے اور کثرت بھی مولانا رومی کا عقیدہ یہ ہے کہ روح انسانی ارتقا دنیا میں بھی جاری رہتا ہے اور آخرت میں بھی جاری رہے گا۔ جسمانی موت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان کو جہاں پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا ہے اور جو کچھ اسے حاصل کرنا تھا وہ اسے حاصل کر چکا ہے۔
جنت میں بھی ادنی طبقے والا شخص اعلی طبقے کی طرف جانے کا آرزو مند ہو گا کوئی وجہ نہیں کہ اس کی یہ تمنا پوری نہ ہوتی رہے اور رجغت الی اللہ کا لامتناہی سلسلہ جاری و ساری رہے۔ مولانا کے خیال میں انسان جب معرفت کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو وہ درحقیقت تخلقواباخلاق اللہ کا راستہ اختیار کرتا ہے اور اس سارے سفر میں وہ محبت کا امین ہوتا ہے وہ عشق حجازی سے عشق حقیقی کا سفر اللہ اور اس کی مخلوق کی محبت کے سہارے طے کرتا ہے اسکی سوچ اور اس کا ہر عمل اللہ تعالی سے محبت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش نے فرمایا کہ دل کا صرف اللہ کی طرف رجوع ہونا اور دنیا کی محبت سے خالی ہونا تصوف ہے۔ سورۃ کہف میں ایک آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ (ولی اللہ) جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں، ان سے (روحانی) تعلق رکھو اور تمہاری نظریں ان کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی رونق کے پیچھے نہ جائیں۔ مولانا رومی اور ابن عربی کو سمجھنے کیلئے آپ کو شریعت اور طریقت قرآن، حدیث اور فقیہہ اور صوفیا کرام کی زندگیوں اور روحانی واردات کے متعلق مکمل سمجھ اور ادراک ہونا بے حد ضروری ہے وگرنہ عام مسلمان انکے سوچ وفکر کو قرآن اور سنت سے الگ کر دیکھے گا تو ہو سکتا ہے کہ بھٹک جائے لہٰذا عام انسان نے اگر اللہ کی دوستی یعنی معرفت حاصل کرنی ہے تو وہ قرآن مجید اور نبی کریمؐ کی تعلیمات کی روشنی میں اللہ کی تمام صفات وکمالات کو پہچانے اس کو ہر عمل میں اللہ کا نور دکھائی دینے لگے گا۔
اگر آپ سچے صوفی مالک اور درویش بننے کے خواہاں ہیں تو ہمیں اپنے دل ودماغ کو دنیاوی خواہشات سے پاک و صاف رکھنا ہو گا۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مطابق صوفی اس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کا دل نفسانی خواہشات سے پاک ہو جو لوگوں سے محبت رکھے جسے گوشہ نشین رہنے میں عافیت محسوس ہو۔ وہ گوشتہ نشین رہ کر اللہ کی بارگاہ میں رہنے کو ترجیح اور سچے صوفی یا درویش کو جو کچھ ملتا ہے وہ اس پر مطمئن رہتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے۔ اس کو اللہ کے احکام پر عمل کرنے سے روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے نفس شیطانی غلبہ، حرص وہوا، دنیا کی برائی اور اچھائی سے مبرا ہوتے ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا فرماتے ہیں سالک وہ ہے جو راہ مسلک پر ہوجس کو اللہ تعالی سے دوستی اور سلوک ہو جو ذوق اطاعت رکھے، جس سے ایسی کوئی حرکت یا قول وفعل سرزد نہ ہو جسے اس کا دوست یعنی اللہ پسند نہ کرے۔ ذرا سی لغزش ہو تو فوراً معافی کا طلبگار ہو۔ اس کا دل اللہ کی محبت میں مستفرق ہو۔
اگرچہ اکثر مذاہب کے علما نے وحدت الوجود کے نظرئیے کو الحاد کی شاعری قرار دیا ہے یعنی جب انسان کو اختیار ہی نہیں تو پھر جزاوسزا کیسی۔ اس پر مولانا رومی کا کہنا ہے کہ انسان کا اختیار اسکے وجود ہی سے سرزد ہوتا ہے لہٰذا جب وہ شر کو اختیار کرتا ہے تو وہ خدا کی مشیت کیخلاف عمل کرتا ہے لہٰذا انسان کے اندر وجود کا وہ پہلو بھی حقیقی ہے جو خدا کی مشیت کے مطبق نہیں ہے کیونکہ انسان کا اخلاقی شر تو عدم سے سرزد نہیں ہوتا ہے۔ مولانا رومی کیمطابق خدا صرف محبوب نہیں بلکہ محب بھی ہے اگر ہم خدا کے محتاج ہیں تو وہ ہمارا مشتاق ہے اللہ کا استغنا اس کو محبت سے متغنی نہیں کرتا کیونکہ وہ اسکی ذاتی صفت ہے جس قدر روحیں خدا کی طرف جانے کیلئے بے تاب ہیں اس سے زیادہ خدا ان کو اپنی طرف کھینچنے کا مشتاق ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024