سوئٹزرلینڈ کے سیاحتی شہر ڈیوس میں جہاں اس وقت بھرپور برفباری اپنے جوبن پر ہے۔ دنیا بھر کے سکیٹنگ کے شائقین جمع ہیں ویسے بھی یہ سیاحتی مقام اپنے جاذب نظر نظاروں کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔ یہاں ہر سال کی طرح جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم کا سربراہی اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی شرکت کے لئے گزشتہ روز ڈیوس پہنچ گئے ہیں۔ اس چار روزہ اجلاس کے کئی سیشن ہوں گے میں عالمی رہنما اور مدبرین موجودہ عالمی و مقامی نظام کو لاحق معاشی و سکیورٹی صورتحال اور دوسرے خطرات کے ساتھ دنیا کی موجودہ صورتحال پر بطور پر خاص غور کریں گے۔ ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اس اجلاس کا اس سال کا مرکزی خیال نہایت اہمیت رکھتا ہے اور آنے والے مستقبل کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سال اس کانفرنس کا عنوان ہے ’’ٹوٹتی دنیا کے مشترکہ مستقبل کی تخلیق۔ ورلڈ اکنامک فورم کا آغاز 1971 میں ہوا۔ مخالفین اور ناقدوں کے مطابق یہ ادارہ سرمایہ دارانہ معاشی طاقتوں کے فروغ کیلئے قائم ہوا ہے جو سامراجی نظام کو فروغ دینے کا باعث بنا ہے۔ ڈیوس کانفرنس میں افتتاحی خطاب بھارتی وزیراعظم کا ہو گا جب کہ اختتامی خطاب امریکہ کے صدر ٹرمپ کریں گے۔ ورلڈ اکنامک فورم ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ جو عالمی کاروبار میں تعاون کے ساتھ سیاسی، صحافتی، تعلیمی، صنعتی اور دوسرے شعبوں میں دنیا بھر کے قائدین کے ساتھ مل کر آئندہ کے لئے ان شعبوں میں ترقی کا لائحہ عمل طے کرتی ہے۔ اس کے ہر سالانہ اجلاس میں اڑھائی ہزار کے قریب ایسے لوگ بھی شرکت کرتے ہیں جو عالمی سطح کی تنظیمیں ادارے چلاتے ہیں ان کے ساتھ ساتھ دنیا کے طاقتور ترین اور بڑے و چھوٹے ممالک کے حکمران اور دانشور بھی اس میں شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان کے تقریباً تمام صدور یا وزیراعظم ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاسوں میں شریک ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اپوزیشن رہنما بشمول عمران خان بھی اس میں شرکت کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اس سال پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو بھی شرکت کے لئے ڈیوس پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی ڈیوس میں ہیں جو وہاں ورلڈ اکنامک فورم کے چار روزہ اجلاس میں پاکستان کی سرکاری نمائندگی کریں اس دوران انہیں عالمی سطح کی معاشی تنظیموں اور ادارہ کے سربراہوں کے علاوہ غیر ملکی سربراہان مملکت سے بھی ملاقات کا موقع ملے گا اور ان سے ملکی و عالمی سطح کے معاملات اقتصادی معاشی صورتحال پر بھی بات چیت ہو گی۔ اس سے پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان مزید قربت پیدا ہو گی اور وہ پاکستان کی بہتر ہوتی ہوئی معیشت اور بدلتی سماجی صورتحال سے بھی آگاہ ہوںگے۔ پاکستان میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی سرمایہ کاروں کو بہتر ماحول کی ضمانت ملنے پر پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔
خوش قسمتی سے موجودہ ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس اس وقت ہو رہا ہے جب خود ورلڈ اکنامک فورم کی 2018 کی تازہ شائع شدہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں پاکستان درجہ بندی کے لحاظ سے بھارت سے کافی آگے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ بندی میں پاکستان انکلیوسیو ڈویلپمنٹ میں بھارت سے 15 پوائنٹ آگے ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 74 ابھرتی ہوئی معیشتوں میں پاکستان کا نمبر47 جب کہ بھارت کا 62واں ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک میں معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے جو پاکستانی حکومت کی مثبت پالیسیوں کو نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جی ٹونٹی(G20) ممالک میں بھارت اپنی ناقص پالیسیوں کے کے سبب معاشی ترقی کے میدان میں روس، چین اور برازیل سے بھی پیچھے ہے اسے صرف جنوبی افریقہ سے ایک درجہ بہتر کا درجہ ملا ہے۔ ملائیشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور فلپائن بھی معاشی ترقی کے میدان میں بھارت سے آگے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی یہ رپورٹ اس بات پر صاد ہے کہ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کے دور میں اس کی معاشی، اقتصادی، صنعتی اور زرعی پالیسیوں اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے حوالے سے اقدامات بھی مثبت اثرات ظاہر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ملکی معاشی صورتحال میں بہتر آئی ہے۔ اب مخالفین لاکھ شور مچائیں مگر یہ ایک حقیقت ہے جس کا اعتراف عالمی ادارے بھی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی سٹاک مارکیٹ میں تیزی اور انڈیکس میں بھرپور اضافہ ملکی سرمایہ کاروں کی طرف سے بھی حکومتی معاشی پالیسیوں پر بھرپور اعتماد کا مظہر ہے۔
پاکستانی معیشت ترقی اور معاشی صورتحال میں بہتری کی ایک وجہ پاکستان، چین گوادر سی پورٹ ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ بھی ہے جو تیزی سے مکمل ہو رہا ہے۔ عالمی ادارے اور ایشین بنک نے بھی اسے فائدہ مند قرار دیا ہے جس سے خطے کے دیگر ممالک بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اس منصوبے پر اربوں روپے کی لاگت آ رہی ہے۔ لاکھوں افراد کو روزگار مل رہے اکنامک زونز بن رہے ہیں۔ ان تجارتی و صنعتی زونوں کی وجہ سے بیروزگاری میں کمی ہو گی اور روزگار کے بے شمار ذرائع پیدا ہوں گے۔ اس طرح بجلی کی قلت کے خاتمے سے بھی صنعتی پہیہ پھر رواں دواں ہو رہا ہے۔ فیکٹریاں کارخانے، دوبارہ چالو ہوں گے تو معاشی خوشحالی کا دور پھر واپس آئے گا۔ حکومت کی زرعی پالیسیوں اور کسان دوست اقدامات سے بھی شہری اور دیہی آبادی کو یکساں فائدہ ہو گا۔ امید ہے وزیراعظم پاکستان ڈیوس کے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں پاکستان کا مثبت معاشی رخ دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ تاکہ وہ یہاں بھرپور سرمایہ کاری کریں جو ملک کی معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح ہم غیر ملکی قرضوں سے بھی نجات پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔