آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے گلگت بلتستان کا سٹیٹس تبدیل کرنے اور اسے پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے خلاف 2 قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کیں ۔ ان قرار دادوں میں حکومت پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے سے باز رہے کیونکہ یہ خطہ بھی کشمیر کا حصہ ہے۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلہ قراکرم ، ہمالیہ ، پامیر ، کوہ ہندوکش کے دامن میں 20 لاکھ آبادی پر مشتمل یہ علاقہ گلگت بلتستان گذشتہ 68 سالوں سے آئینی حقوق کی جنگ لڑتا آیا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو بنیادی آئینی حقوق میسر نہیں آئے جو کہ آزاد کشمیر پاکستان کے دوسرے حصوں کو میسر ہیں۔ یہ ریاست جموں کشمیر کا وہ حصہ ہے جس کی آزادی کی تحریک میں سب سے زیادہ قربانیاں پیش کیں اور دشمن سے سب سے بڑا علاقہ آزاد کرایا جس کا رقبہ 29 ہزار مربع میل ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ 1954ءتک اپنا ڈومیسائیل مظفر آباد سے حاصل کرتے رہے ہیں۔ آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے بانی چوہدری غلام عباس نے 1954ءمیں اس علاقے کا تاریخی دورہ کیا۔ 1934ء، 1937ء، 1941ء، کے ریاستی انتخاب میں یہاں سے پانچ نمائندے کشمیر اسمبلی میں موجود تھے اور قیام پاکستان کے وقت بھی ان کی نمائندگی موجود تھی۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد جو حقوق حاصل تھے وہ بھی سلب کر لیے گئے۔ 1949ءکو معاہدہ کراچی کے تحت اس علاقے کا عارضی انتظام حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ معاہدہ کراچی میں رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس آزاد کشمیر کے پہلے صدر سردار محمد ابراہیم خان اور پاکستان کی طرف سے وزیر امور کشمیر مشتاق گورمانی نے دستخط کیے۔ 1950ءمیں حکومت پاکستان نے اس علاقے کو وزارت امور کشمیر کے حوالے کر دیا۔ وزارت امور کشمیر کی طرف سے کشمیری قیادت کو آپس میں لڑایا جاتا رہا۔ خود مختار کشمیر کے نعرے کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا۔ الحاق پاکستان کے حامیوں کو دبایا گیا۔ ایک صدر کو بٹھایا اور دوسرے کو اتارا جاتا رہا۔ کشمیری قیادت کو ڈرا دھمکا کر اس علاقے سے دور رکھا گیا۔ 1970ءمیں پہلی بار گلگت بلتستان میں مشاورتی کونسل قائم کی گئی اور انتخابات ہوئے۔ 1976ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پہلی بار FCR اور جاگیرداری اور ایجنسی سسٹم کو ختم کر کے اس علاقے کو ضلعوں کا درجہ دیا گیا۔ 1994ءمیں وفاقی کابینہ نے طویل عرصے کے بعد ایک پیکج کی منظوری دی جس کے تحت 25 رکنی کونسل مقرر کی گئی۔ اسے اختیار دیا گیا کہ اپنی مرضی سے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو کا انتخاب کر سکتی ہے۔ 50 برس تک وزارت امور کشمیر اور بیورو کریسی نے ایسے فیصلے کیے کہ اس علاقے کو قابل قبول نہ تھے۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو نے آزاد کشمیر کو بھی صوبہ بنانے کی بھر پور کوششیں کیں۔ جس کی کشمیری قیادت سردار عبدالقیوم خان ، سردار سکندر حیات اور آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے بھر پور مخالفت کی۔ آزاد کشمیر اور گلگت کے انتخابات میں مداخلت کا ایسا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔ بالخصوص مہاجرین کی نشستوں پر من مانی اور پسند نہ پسند کا نا ختم ہونے والا کھیل اب تک جاری ہے۔ صدر زرداری کی حکومت میں 2009ءمیں ایک آرڈیننس کے ذریعے اصلاحی پیکج کی منظوری دی جس کے تحت قانون ساز اسمبلی گورنر ، وزیر اعلیٰ اور دیگر مراعات کا اعلان کیا گیا اور اس علاقے کو صوبے کا سٹیٹس دینے کی کوشش کی گئی لیکن شدید دباﺅ پر اس پر عمل درآمد نہ ہو سکاتاہم غیر ریاستی گورنر مقرر کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اسی روایت کو پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی جاری رکھا اور غیر ریاستی وزیر امور کشمیر کو گورنر کا اضافی چارج دے دیا گیا۔ کیا کشمیری عوام سے کوئی اہل اور قابل اعتماد شخص پاکستان مسلم لیگ کو نہ مل سکا۔ یہی بات کہ ہم ہمیشہ بھارت کے فیصلوں کی مخالفت کرتے ہیں کہ اس نے غیر ریاستی لوگوں کو مقبوضہ کشمیر کا گورنر مقرر کیا ہوا ہے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ روز اول سے گلگت ریاست جموں کشمیر کا حصہ اور نا قابل تقسیم اکائی ہے۔ برصغیر کے حکمرانوں ، انگریزوں اور ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا ہے۔ اب جبکہ موجودہ حکومت کی طرف سے صوبے کا درجہ دینے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کے رد عمل کے طور پر حکومت آزاد کشمیر اور تمام سیاسی جماعتوں اور آل پارٹی حریت کانفرنس کے رہنماﺅں نے شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لئے آئینی حیثیت بدلنا عالمی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہے، حکومت تقسیم کشمیر کی سازش بند کرے۔ خطہ کشمیر کو توڑنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ معاہدہ کراچی کے تحت عارضی انتظامات کے طور پر پاکستان کے کنٹرول میں یہ علاقہ دیا گیا تھا۔ اگر صوبے کا سٹیٹس دیا گیاتو یہ تحریک آزادی کشمیر کو کمزور کرنے کے مترادف ہو گا۔ ایسا کرنے سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے قبضہ کو آئینی حیثیت دینا ہوں گی۔ اس طرح لائن آف کنٹرل کو مستقل سرحد تسلیم کر لیا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کی حیثیت متنازعہ ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ختم کرنے کی سازش ہوگی کیونکہ ماضی میں بھی آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دیا تھا اور کہا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کی طرح کا Set-up دیا جائے۔ کشمیری رہنماﺅں سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق ، سردار عتیق احمد خان ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ، سردار خالد ابراہیم نے درست کہا کہ جب ریاست جموں کشمیر کی غالب اکثریت پاکستان سے الحاق کی خواہش رکھتی ہے تو قبل ازیں اس صوبے کا درجہ دینے سے اصولی موقف کو شدید نقصان ہو گا۔ یہ ایسی بات کا آغاز ہے جس سے پاکستان کی وحدت اور مسئلہ کشمیر کو شدید نقصان ہو گا اور بھارت کے موقف کو تقویت حاصل ہو گی اور ایسا پنڈورا بکس کھل جائے گا جس سے کشمیری عوام اور پاکستانی حکمرانوں کے درمیان نفرت بڑھے گی کیونکہ پاکستانی اور کشمیری عوام نے مل کر جدوجہد کی ہے اور بے شمار قربانیاں دی ہیں اس لئے تقسیم کشمیر کا کوئی فارمولا قابل قبول نہ ہو گا۔ پاکستانی عوام اور کشمیری عوام وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے امید رکھتے ہیں کہ ایسا فیصلہ جس سے کشمیری کاز کو نقصان ہو اس کی اجازت نہ دیں گے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38