نامور بھارتی فلمساز اور ڈائریکٹر ” کرن جوہر “ نے کہا ہے کہ ” ہندوستان کے اندر عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ آزادی اظہار اور فرد کی رائے کی بات یہاں پر ایک مذاق سے کم نہیں اور بھارت میں جمہوریت کی بات اس سے بھی بڑا سنگین مذاق ہے“۔ موصوف نے ان خیالات کا اظہار بائیس جنوری کو بھارتی صوبہ راجستھان کے صوبائی دارالحکومت میں منعقدہ ” زی لٹریری فیسٹیول “ کے دوران کیا ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ چھبیس جنوری کا دن ہندوستان میں یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا جا تا ہے ۔ اس موقع پر ہر برس کسی غیر ملکی سربراہ کو چیف گیسٹ کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے ۔ اس برس فرانس کے صدر ” اولاندو “ مہمان ہیں جبکہ گذشتہ سال امریکی صدر ” براک اوبامہ “ کو یہ ” اعزاز “ بخشا گیا تھا ۔ 2014 میں جاپان کے صدر ” شن زو ایبے “ کو مہمانِ خصوصی کی حیثیت دی گئی تھی ۔
یاد رہے کہ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے چھبیس نومبر 1949 کو آئین کی منظوری دی جب کہ چھبیس جنوری 1950 کو یہ آئین نافذ العمل ہوا تھا اور اسی حوالے سے اس دن کو یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ مبصرین کے مطابق اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں کہ بھارت میں حکومتوں کی تبدیلی ووٹ کے ذریعے عمل میں آتی ہے ۔ یوں اس جمہوریت کو حقیقی معنوں میں صرف الیکٹورل ڈیموکریسی کا نام دیا جا سکتا ہے چونکہ 1952 میں لوک سبھا کے پہلے عام انتخابات ہوئے ۔ اس کے بعد بالترتیب 1957 ، 1962 ، 1967 ، 1971 ، 1977 ، 1980 ، 1984 ، 1989 ، 1991 ، 1996 ، 1998 ، 1999 ، 2004 ، 2009 اور 2014 کو لوک سبھا انتخابات ہوئے ۔ اور حقیقت میں بھارتی جمہوریت محض مخصوص مدت پر ووٹ ڈالنے کی حد تک ہی محدود ہے ۔
اس ضمن میں قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ اس بھارتی آئین کو ڈرافٹ کرنے والی شخصیت ” بھیم راﺅ امبیڈکر “ جو اچھوت ہندوﺅں کے سب سے بڑے رہنما تھے اور جنھیں اس آئین کا خالق قرار دیا جاتا ہے مگر انھیں بھی غالباً چند برسوں میں ہی اندازہ ہو گیا کہ دہلی کے بالادست ہندو طبقات ہر معاملے میں قول و فعل کے بدترین تضاد کا شکار ہیں اور انھیں نہ کسی انسانی ضابطے اور اخلاقی روایت کی پرواہ ہے اور نہ ہی کسی لکھے ہوئے معاہدے یا آئین کا پاس ہے ۔ تبھی تو بھارتی آئین کے اس خالق نے انتہائی مایوسی کی حالت میں 1957 میں نہ صرف حکمران کانگرس سے علیحدگی اختیار کر لی بلکہ ہندو دھرم ترک کر کے بدھ مت اپنا لیا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ صرف اسی ایک بات سے ہندوستانی حکمرانوں کی اصل ذہنیت کسی حد تک واضح ہو جاتی ہے ۔ دوسری جانب چھبیس جنوری 2016 کو مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں بھارتی ریپبلک ڈے کو اس برس بھی ” یومِ سیاہ “ کے طور پر منایا جا رہا ہے ۔ بزرگ کشمیری رہنما ” سید علی گیلانی “ اور دوسرے حریت قائدین نے اس حوالے سے دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دہلی کے غاصبانہ تسلط کے خلاف چھبیس جنوری یومِ سیاہ کے طور پر منائیں ۔ انھوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا ہے کہ کشمیری قوم کو بھارت یا اس کے یومِ جمہوریہ سے کوئی عناد نہیں لیکن مقبوضہ ریاست کے ایک کروڑ سے زائد عوام دہلی سرکار کی مسلسل وعدہ خلافیوں اور ریاستی دہشتگردی سے تنگ آ چکے ہیں لہذا دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کی توجہ کشمیری عوام کی زبوں حالی کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس موقع کو سیاہ دن کے طور پر منایا جا رہا ہے ۔
تجزیہ کاروں نے اس موقع پر اس جانب توجہ دلائی ہے کہ چھبیس برس قبل اکیس جنوری 1990 کو مقبوضہ ریاست کے ” کدال “ گاﺅں میں کشمیریوں کی نسل کشی کے حوالے سے جو سانحہ پیش آیا جب تقریباً دو سو اسی معصوم کشمیری قابض بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے ۔ مبصرین کے مطابق اگر عمر عبداللہ یا محبوبہ مفتی جیسی بھارت نواز شخصیات بھی اس حوالے سے ہندوستانی دہشتگردی کی بات کریں تو صورتحال کی سنگینی کا بخوبی ا ندازہ ہو جاتا ہے ۔ ویسے تو کشمیریوں کے لئے ہر دن ہی روزِ سیاہ ہے کیونکہ 1989 سے لے کر اب تک کشمیری قوم کے ایک لاکھ سے زائد فرزند بھارتی بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔
دوسری جانب بھارت کے طول و عرض میں عام بھارتی مسلمان گذشتہ اڑسٹھ برسوں سے بالعموم اور پچھلے بیس ماہ سے بالخصوص بھارت سرکار کی سرپرستی میں چل رہی زعفرانی انتہا پسندی کا نشانہ اس واضح انداز میں بن رہے ہیں کہ نہ صرف ” کرن جوہر “ ، ” عامر خان “ ، ” شاہ رخ “ اور ” ارون دھتی رائے “ جیسی شخصیات کھل کر بھارتی سیکولر ازم اور جمہوری دعوﺅں کے خلاف بول رہے ہیں بلکہ گذشتہ سال اسی یومِ جمہوریہ کے مہمانِ خصوصی ” امریکی صدر اوبامہ “ نے ستائیس جنوری 2015 کو دہلی کے ” شری فورٹ آڈیٹوریم “ میں اپنی تقریر کے دوران 2000 سے زائد افراد سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی حکومت اور بالادست طبقات سے کہا تھا کہ اگر وہ حقیقی ترقی اور سلامتی کے خواہش مند ہیں تو انھیں مذہبی انتہا پسندی کو خیرباد کہنا ہو گا اور خواتین اور پسماندہ ذات کے خلاف ہونے والے مظالم کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان سبھی شہریوں کو مساوی انسانی حقوق فراہم کرنے ہوں گے ۔
بہر کیف اس تمام پس منظر کا جائزہ لیتے اعتدال پسند تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ امید رکھنی چاہیے کہ فرانس کے صدر بھی دہلی میں اپنی موجودگی کے دوران وہاں کے حکمرانوں کو مشورہ دیں گے کہ وہ اپنی جمہوریت اور سیکولر ازم کے دعوﺅں کو محض نمائشی پریڈوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ نہ صرف بھارتی اقلیتوں کو مساوی انسانی حقوق فراہم کریں بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھی اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ان کا بنیادی انسانی حق یعنی حقِ خود رادیت فراہم کریں وگرنہ تو ” کرن جوہر “ کی اس بات کو سو فیصد حقائق پر مبنی تصور کیا جائے گا کہ بھارتی جمہوریت اور آزادی اظہار کی باتیں ایک سنگین مذاق کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024