پیر‘14 ربیع الثانی1437ھ‘ 25 جنوری 2016 ء
ق لیگ اور تحریک انصاف کے وکلا لوکل باڈیز قوانین کیخلاف پٹیشن دائر کرینگے: شجاعت
لیجئے جناب اب عرصہ دراز بعد ہمارے سدا بہار چودھری شجاعت نے ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے ق لیگ اور تحریک انصاف کی طرف سے بلدیاتی قوانین کیخلاف عدالت میں جانے کا اعلان کر دیا۔ چلیں اس بہانے سیاست کے بازار میں (جہاں اکثریت ہمیشہ مطلبیوں کی ہی رہتی ہے) ایک مرتبہ پھر ق لیگ کو بھولی بسری کہانی سمجھنے والے چوکنا ہو جائیں گے۔ کبھی پنجاب میں ہی نہیں پورے پاکستان میں جنرل (ر) مشرف کے زیر سایہ ق لیگ کا طوطی بولتا تھا۔ بڑے بڑے نامی گرامی سیاستدان اسی کے در سے من مانگی مراد پاتے تھے پھر ایسا وقت آیا کہ بقول شاعر
خلوص دل سے کہو ہم کو بھولنے والو
کبھی تمہیں بھی ہمارا خیال آتا ہے
وقت بدلا ق لیگ کے صحن چمن میں بولیاں بولنے والے اڑ کر ن لیگ کو ہری بھری شاخوں پہ کوکنے لگے۔ جو پہلے ہی مرغ بادنما قسم کے سیاستدانوں کو گود میں لینے کے لئے ہمیشہ بازو وا کئے رکھتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ق لیگ کا میلہ اجڑ گیا مگر آفریں ہے چودھری برادران پر کہ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا سیاسی تھیٹر جاری رکھا۔ جس کے فنکار کم ہو گئے تماشبین کم ہو گئے مگر یہ بند نہیں ہوا۔
آج بھی چودھری خاندان کے ڈیرے آباد ہیں یہ بھی وضع داری کی ایک مثال ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں کھیل ختم پیسہ ہضم ہوتا ہے۔ اب لگتا ہے تحریک انصاف اور ق لیگ میں سیاسی فاصلے کچھ کم ہوئے ہیں۔ ویسے عمران خان کی تحریک انصاف اور چودھری شجاعت کی ق لیگ کی کوشش ہے کہ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے کیا جائے شو آف ہینڈ سے بندے حکومتی مراعات اور دھمکیوں کے زیر بار رہتے ہیں۔ جسے ہم عام لفظوں میں ہارس ٹریڈنگ کہتے ہیں۔ بکا¶ مال یا بکا¶ گھوڑے بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس خریدنے اور بکنے والے نظام کو ختم کرنے کے لئے ان کی کوشش کامیاب رہی تو یہ جمہوریت کیلئے ایک شگون ہو گا۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
کراچی: سندھ اسمبلی میں پارکنگ کی توسیع کیلئے غریب ملازمین کے کوارٹر مسمار
نجانے وہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں جمہوریت سب سے بہتر نظام حکومت ہے اور یہ عوام کو ہر طرح کی سہولت اور فائدہ پہنچاتا ہے۔ اب کوئی ان غریب کوارٹروں میں رہنے والوں سے جمہوریت کے فیوض دریافت کرے۔ جن بے چاروں کے سروں سے ان کی چھت اسلئے چھینی گئی ہے کہ وہ وہاں سندھ اسمبلی میں بیٹھنے والے ممبران کیلئے وسیع کار پارکنگ بنانی ہے کیونکہ اب ہمارے ارکان اسمبلی فوکسی یا مہران میں نہیں لینڈ کروزروں اور پجاروز میں آتے ہیں اور پہلی پارکنگ چھوٹی پڑ گئی ہے۔
شدید سردی میں جن غریب سرکاری ملازمین کے کوارٹر گرائے گئے وہ ساری رات چھوٹے بچوں اور جوان بچیوں سمیت کس اذیت میں رہے ہوں گے اس کا ادراک اپنے گرما گرم بنگلوں میں رج کے کھانے پینے والے ان حکمرانوں کو کہاں ہو گا۔
وزیراعلیٰ سندھ شاید حسب معمول سوئے ہوئے ہوں گے اسلئے انہیں ابھی تک اس دلدوز واقعہ کی بھنک بھی نہیں ہوئی ہو گی ورنہ وہ چونکتے ہوئے اس حوالے سے کوئی نہ کوئی نیم فکائیہ بیان جاری کر چکے ہوتے۔ عوامی مسائل پر ان کے بیانات ہمیشہ
”ہماری جان جاتی ہے تمہارا کھیل ہوتا ہے“
قسم کے ہوتے ہیں۔ تھر کو ہی دیکھ لیں 88 سے زیادہ بچے جاں بحق ہو چکے حضرت فرماتے ہیں پیدا ہوتے ہی مرنے والے بچے کی خبر حکومت کو کیسے ہو سکتی ہے؟ شاید وہ دن رات سوتے رہنے کی وجہ سے اپنی بدھی کھو چکے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ تھر جاتے وہاں کی بدانتظامی کا نوٹس لیتے بچوں کی جان بچانے کیلئے خود وہاں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جاتے الٹا وہ مرنے والوں کے لواحقین کے دل جلا رہے ہیں۔ تھر تو چلیں دور افتادہ پسماندہ علاقہ سے مگر یہ سندھ کے دل میں وزیراعلیٰ کے آرام کدہ اسمبلی کی ناک کے نیچے جو کچھ ہو رہا ہے کیا اس پر بھی جناب چپ ہی سادھ لیں گے یا کوئی پھلجھڑی چھوڑیں گے۔ پہلے تو کوئی جا کر انہیں جگائے اور کہے کہ
”نی سَیے بے خبرے تیرا لٹیا شہر بھنبھور“
....٭....٭....٭....٭....٭....
چودھری نثار کو ہٹانے کیلئے دو وزرا سرگرم عمل ہیں: اپوزیشن ذرائع
اب تک لوگ یہی سمجھتے تھے کہ وزیر داخلہ چودھری نثار بھی چونکہ درویش قسم کے انسان ہیں اسلئے وہ اپنے خلاف محاذ گرم دیکھ کر ہمارے سابق صدر ضیا الحق کے سیاسی پیر و مرشد سردار عبدالقیوم خان کی طرح کسی خاموش مقام پر چلے میں بیٹھ جائیں گے۔ موجود حکومت ان کی اپنی ہے مگر اس کے 3 سالہ دور میں وزیر داخلہ چودھری نثار کم از کم دو مرتبہ چلہ کاٹتے نظر آئے ہیں۔ کشمیر میں موسم سرما سرد ترین ہوتا ہے جسے وہاں دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک چلہ کلاں ہوتا ہے جو جنوری فروری کے 40 دن رہتا ہے اس کے بعد بچہ چلہ یا چلہ خورد 20 یوم کیلئے مارچ میں آتا ہے اس کے بعد سردیاں کم ہونا شروع ہوتی ہیں۔ اب معلوم نہیں چودھری نثار کی موجودہ چلہ کشی کے پیچھے کیا راز ہے انہوں نے یکدم یہ چپ کا روزہ کیوں رکھ لیا ہے۔ عوام کی نظروں میں وہ اپنی بے باکی کی وجہ سے دبنگ خان بن چکے ہیں۔ انہیں اپنا یہ امیج برقرار رکھنا چاہئے جو بات ان کے دل کو تڑپا رہی ہے اسے لبوں تک لانا چاہئے۔ چاہے....
ہونٹوں پہ کوئی بات میں دبا کے چلی آئی
کھل جائے جو یہ بات تو دہائی ہے دہائی
والی حالت کیوں نہ برپا ہو جائے۔ دوست ہوں یا دشمن ان کو صحیح راہ دکھانا ان کی اصلاح کرنا سچے انسان کا کام ہے کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہونے دیں۔ آپ کا نام بہادروں کی فہرست میں آنا چاہئے جی حضوری کرنے والوں میں نہیں۔ اقبال نے ایسے موقعوں کیلئے کہا تھا ”نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری“ ورنہ سردار قیوم مرحوم کی طرح مصلحت کا نام عقلمندی رکھنا بہادروں کو زیبا نہیں دیتا۔ آپ حکمرانوں اور عوام کو اچھا برا سمجھانے کا اپنا حق ادا کرتے رہئے۔ یوں چپ رہنا گوشہ نشین ہونا آپ کو زیبا نہیں دیتا۔
....٭....٭....٭....٭....٭....