بیل کو کبھی غور سے دیکھیں تو ہم انسانوں کے مقابلے میں بہت ہٹاکٹا، توانا اور طاقت ور نظر آتا ہے۔ سدھانے کے لئے اسے کھونٹ سے باندھ کررکھا جاتا ہے۔ وقت سے کہیں پہلے گائے کے دودھ سے چھڑواکر اسے طے شدہ اوقات میں چارہ ڈال کرپالا جاتا ہے۔ جوان ہونے سے کہیں پہلے اس کی ناک میں ڈال دی جاتی ہے نکیل اور بتدریج وہ اپنے مالک کے صرف ہاتھ اٹھانے پر وہی کچھ کرتا ہے جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔ انگریزی اصطلاح میںTask Drivenجانور جو اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے جیتا ہے۔
کولہو میں جٹا بیل اس حوالے سے اہم ترین مثال ہے۔ آنکھوں پر چڑھے کھوپوں کے ساتھ ایک ہی دائرے میں مسلسل گھومتا ہوا بیل جو سفر کی تمام اذیتوں سے گزرتا ہے۔ مگر کسی منزل تک پہنچنا تو بہت دور کی بات ہے، اس کا تعین ہی نہیں ہوپاتا۔
آج صبح یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو اپنی تمام تر طاقت اور توانائی کے باوجود مالک کے اشاروں کا غلام بنا بیل میرے ذہن میں درآیا ہے۔ یہ سوچ کر شرمسار ہوئے چلا جاتا ہوں کہ میرے جیسے دیہاڑی دار کالم نگار آنکھوں میں کھوپے چڑھائے ایک مخصوص دائرے میں گھومتے اب بہت ہی پرانے ہوئے اور بارہا دہرائے خیالات کی جگالی میں مصروف رہتے ہیں۔ قارئین کے حوصلے کو سلام جو ہماری تکرار کو برداشت کئے چلے جارہے ہیں۔
9/11کے بعد امریکہ کی مسلط کردہ نام نہاد War on Terrorنے ہمارے ہاں متعارف کروائی دہشت گردی۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد ہمارا ”تجزیہ“ اور الفاظ ہمیشہ ایک جیسے ہی رہتے ہیں۔ اسلام چونکہ سلامتی کا سبق دیتا ہے لہذا ہم یہ بات تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ کوئی پیدائشی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو بغیر کسی معقول وجہ یا فوری اشتعال کے قتل جیسے گھناﺅنے جرم کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
2005ءکے نومبر کی ایک شام مجھے آج تک یاد ہے۔ ایک ”حساس“ ادارے کے ایک بہت ہی متحرک شخص اس شام مجھے بہت شدت سے سمجھاتے رہے کہ وزیرستان میں گرفتار یا مارے گئے دہشت گرد ”مسلمانی“ کے عمل ِجراحی سے نہیں گزرے تھے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے۔ میری بدقسمتی مگر یہ تھی کہ 1980ءکی دہائی سے ”افغان جہاد“ کے بارے میں مسلسل رپورٹنگ کی وجہ سے پشتون ثقافت اور روایات کا تھوڑا بہت علم بھی ہوچکا تھا۔ قبائلی علاقوں سے جڑی کچھ عادات کی آگہی بھی اس میں شامل تھی۔ Breaking Newsکے ساتھ مہربان ہوئے اس افسر کی بات سن کر مسکراتا رہا۔کسی بھی رپورٹر کے لئے ضروری میرا شکوک وشبہات بھرا ذہن اس افسر کو ”حب الوطن“ نظر نہ آیا۔ اتفاق سے اس کے سینئر میرے سکول کے زمانے کے دوست تھے۔ وہ مجھے خوب نہ جانتے ہوتے تو شاید میری ”فائل“ مزید خراب ہوجاتی۔ میں Gray Areaسے نکال کر Jet Blackخانے میں ڈال دیا جاتا۔
جنوری 2016ءکے آغاز کے ساتھ ہی ٹیلی فون Chatterکے ذریعے دہشت گرد ہماری ریاست کی آنکھوں اور کانوں کو متنبہ کرتے رہے کہ وہ پشاور میں APSجیسا کوئی واقعہ دہرانے کی تیاری کررہے ہیں۔ چند ٹھوس اشاروں کی بناءپر پشاور کی مقامی انتظامیہ چند علاقوں میں سکول بھی بند کرواتی رہی۔ ہماری سلامتی پر مامور افراد کی توجہ پشاور کی جانب موڑ کر بالآخر حملہ کر دیا گیا چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر۔ یہ حملہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ سنگین تباہی کا باعث ہوسکتا تھا۔ پولیس اور فوج کے نوجوانوں نے مگر بڑی مہارت اور سرعت کے ساتھ ایسی تباہی ہونے نہ دی۔ ان کی مستعدی کو سلام۔ ہم دیہاڑی داروں نے مگر ”تجزیہ“ کیا پیش کیا؟
پٹھان کوٹ کے واقعے کے بعد بھارتی وزیر دفاع کی لگائی ایک بڑھک کے تذکرے کے بعد ہم ایک بار پھر لوگوں کو یاد دلانا شروع ہو گئے کہ افغانستان میں ضرورت سے کہیں زیادہ بھارتی قونصل خانے قائم کئے گئے ہیں۔ افغان انٹیلی جنس میں موجود بھارتی نواز افسروں کی معاونت سے ان قونصل خانوں میں بیٹھے افرا د پاکستان سے فرار ہوکر افغانستان میں پناہ گزین دہشت گردوں کو ہمارے ملک میں تباہی پھیلانے کے لئے تیار کرتے رہتے ہیں۔ چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر ہوا حملہ بھی اس سازشی عمل کا شاخسانہ ہے۔
بھارت کی پاکستان سے دشمنی ازلی ہے۔ اس کے انٹیلی جنس ادارے بھی ہیں اور ایسے ادارے ایدھی ٹرسٹ جیسے انسان دوست کاموں کے لئے نہیں بنائے جاتے۔ ان کا سارا دھندا سفاک اور گندا ہی ہوا کرتا ہے۔ چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر ہوئے حملے کو بھارتی وزیر دفاع کی بڑھک کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے ماتم کنائی مگر ہمارے عوام کو اس خوف میں بھی تومبتلا کرسکتی ہے کہ ہمارا ازلی دشمن جب چاہے افغانستان میں بیٹھے اپنے کارندوں اور ان کے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں اپنی پسند کی جگہ پر تخریب کاری کی کوئی بھی واردات کروا سکتا ہے۔ جان کی امان پاتے ہوئے میں بھارتی پاٹے خانوں کی سکت اور صلاحیت کو ان کی اصل اوقات سے کہیں زیادہ بڑھاکرپیش کرنے والی ان کہانیوں کا اثبات کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔
آنکھوں سے کھوپے اُتار کر انٹرنیٹ پر موجود ایک خودساختہ ”خلیفہ“ کا خطاب ذرا غور سے دیکھیں اور سنیں۔ چارسدہ پر حملہ کرنے والے ممکنہ دہشت گرد اس کے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔
کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر وہ ”خلیفہ“بہت تفصیل سے بیان کررہا ہے کہ ”طاغوتی ذہنوں“ کی اصل آلہ کار جدید تعلیم ہے۔ اس تعلیم کی بدولت بنتے ہیں وکیل وغیرہ جو ”اسلام کے منافی“ نظام کو رواں رکھتے ہیں۔ ”مغربی تعلیم“ دینے والے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں لہٰذا قرار پائے اس خودساختہ ”خلیفہ“ کے اصل اہداف اور وہ انہیں اپنا نشانہ بناتا رہے گا۔ 1857ءکے بعد سے جاری ہوئی ”کالج“ مقابلہ ”مدرسہ“ جنگ گویا ایک حوالے سے اب بھی جاری ہے اور اس میں شدت آرہی ہے۔
جدید تعلیم کو ”اسلام دشمن“ قرار نہ دینے کے لئے ہمیں ضرورت ہے ایک مو¿ثر اور طاقت ور بیانیے کی۔ اس بیانیے کی تشکیل کے لئے ضرورت ہے سرسید احمد خان جیسے ضدی اور تخلیقی ذہن کی۔یہ ذہن ہم دیہاڑی دار لکھاریوں کو لیکن نصیب نہیں۔ پنجابی کا ایک محاورہ ویسے بھی متنبہ کرتا ہے کہ طاقت ور کا گھونسا ربّ سے زیادہ ”نیڑے(قریب) ہوتا ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ خود ساختہ ”خلیفہ“ نے جو کچھ دکھایا اور کہا اسے شتر مرغ کی طرح سرریت میں ڈال کر نظرانداز کردیجئے۔ ویسے بھی ہماری سہولت کے لئے بھارتی وزیر دفاع کی بڑھک واضح الفاظ میں موجود ہے۔ اس کی دہائی مچاتے چلے جائیں۔ کالم کی دیہاڑی بھی لگ جاتی ہے اور آپ کی وطن سے محبت اور ازلی دشمن سے نفرت بھی آپ کے پڑھنے والوں پر ثابت ہوجاتی ہے۔ ”چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو“ کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ ذہنوں سے کھوپے اُتارکر حقیقت کو جان کربیان کرنے کی جرا¿ت آپ کو ”طاغوتی طاقتوں“ کا آلہ کار بناکر بھی پیش کر سکتی ہے۔ لہٰذا اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ۔