4ملکی مذاکرات، اسلام آباد میں سفارتی حلقے پیش رفت سے مطمئن نہیں: بی بی سی
اسلام آباد (بی بی سی) افغانستان بلکہ اب اس پورے خطے میں پھیلے شدت پسندی کے مسئلے کے حل کے لیے چار ملکی گروپ کے مذاکرات کے دو دور ہوچکے ہیں لیکن اسلام آباد میں سفارتی حلقے اب تک کی پیش رفت سے زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ مذاکرات کا پہلا دور اسلام آباد جبکہ دوسرا کابل میں ہوا لیکن بعض سفارتی اہلکاروں کے بقول افغان طالبان سے بات چیت کی تیاری کے لیے جاری یہ مذاکرات چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ توجہ اور وقت دے رہے ہیں اور اصل مقصد پر بات نہیں ہو رہی۔ گروپ میں شامل ممالک نے اب تک کی پیش رفت میں سست رفتاری پر کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن افغانستان میں پاکستان کے سفیر جانان موسی زئی نے بھی گزشتہ دنوں ایک تھنک ٹینک میں سیر حاصل خطاب میں واضح طور پر شاید انہی مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ان کے پاس انتظار کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے۔ بات چیت کے لیے ہمارے پاس سال نہیں ہیں۔ ہمیں کسی نتیجے پر چند ماہ میں پہنچنا ہوگا۔ شدت پسندوں کی موسم بہار کی تازہ یلغار کوئی زیادہ دور نہیں۔ اسی قسم کے تحفظات امریکی سفارت کار بھی رکھتے ہیں۔ انہیں بھی اب تک کی بات چیت اصل مسائل سے دور دکھائی دے رہی ہے۔ امریکی تھنک ٹینک ’’رینڈ‘‘ کے سینئر فیلو جیمز ڈوبنز نے سابق سفارت کار زلمے خلیل زاد کے ساتھ پاکستان کے پاس افغانستان میں امن کی کنجی ہے کے عنوان سے ایک مشترکہ مضمون میں اسی سوچ کی عکاسی کچھ یوں کی ہے، مارچ کے اواخر میں نئے جنگی سال کے آغاز سے قبل مذاکرات میں ٹھوس پیش رفت پاکستان کے ارادوں کو ظاہر کرے گی۔ پاکستان کا کہنا ہے چار ممالک پر مشتمل یہ گروپ بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ افغان طالبان اور کابل میں حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات جلد از جلد شروع کیے جاسکیں۔ پہلے اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے مذاکرات کے لیے آمادہ اور نا آمادہ شدت پسندوں کے لیے الگ الگ پالیسیاں تیار کرنے کی بھی بات کی تھی۔ اس بات نے بھی سفارت کاروں کو مخمصے میں مبتلا کر دیا ہے۔ جولائی میں مری میں ہونے والے براہ راست مذاکرات میں تو حقانی اور دیگر سب کی نمائندگی تھی۔ لیکن اب طالبان کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کے بعد کون بات چیت کے لیے تیار ہے اور کون نہیں، کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ملا اختر منصور کے گروپ کے تازہ بیان سے صورتحال قدرے واضح ہوئی ہے کہ وہ اب بھی مذاکرات چاہتے ہیں۔ ان کے مخالف دھڑے کی اس سلسلے میں خاموشی شاید ان کی نا آمادگی ظاہر کرتی ہے۔ چار ملکی مشاورت کا آئندہ دور ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے میں ہو رہا ہے۔ اس سے قبل افغان طالبان کی جانب سے مذاکرات کی مناسبت سے چند مثبت اشارے سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ میدان جنگ میں انہوں نے گاڑی موسم سرما میں بھی اگر پانچویں نہیں تو چوتھے گِیئر میں رکھی ہوئی ہے، لیکن دوہا، قطر میں پگواش تنظیم کے زیر اہتمام سیمینار میں باضابطہ شرکت کر کے انہوں نے اپنا موقف واضح کیا ہے۔