خام تیل کی قیمت 26.50ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے میرے خیال کے مطابق یہ قیمت’’ 15ڈالر ‘‘فی بیرل پر آکر رکے گی کیونکہ ایران نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود’’ عالمی اقتصادی پابندیوں ‘‘کے خاتمے کے اعلان کیساتھ ہی تیل کی پیداوار’’ غیرمعمولی‘‘ پیمانے پر’’ بڑھانے‘‘ کا فیصلہ کیاہے۔ ایرانی حکومت نے تیل کی پیداوار میں روزانہ’’ 5 لاکھ‘‘ بیرل بڑھانے کا ’’حکم‘‘ دیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں بھی ایران پانچ لاکھ بیرل تیل ’’یومیہ ‘‘فروخت کریگا۔ دوسری وجہ دنیا میں’’ شیل گیس‘‘ کی دریافت ہے شیل گیس کیا’’ نکلی‘‘ بہت سے ملکوں کے ہاتھ اربوں ڈالر کا’’ خزانہ‘‘ آگیا۔امریکہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ شیل گیس کی دریافت سے وہ چند سالوں میں’’ توانائی ‘‘میں بھی ’’ خود کفیل ‘‘ہوجائے گا۔ اوباما خوشی سے ’’پھولے‘‘ نہیں ’’سما‘‘رہے کہ یہ ذخائر’’ 100 سال‘‘ تک چلیں گے۔ دوسری طرف امریکا، ایران اور وینزویلا میں ’’صف ماتم‘‘ بچھ گئی ہے۔ امریکا نے تیل خریدنا’’ بند‘‘ کیا تو قیمتیں’’ دن بدن ‘‘گرتی چلی گئیں۔ تیل پیدا کرنے والے تمام بڑے ممالک’’ سرجوڑ‘‘ کر بیٹھے تو توقع کی جارہی تھی کہ تیل نکالنے والے بڑے ممالک کی’’ تنظیم اوپیک‘‘ کے اجلاس میں کوئی بڑا فیصلہ سامنے آئے گا۔ لیکن اوپیک کا اجلاس ہوا اور اعلان کردیا گیا کہ قیمتیں جتنی بھی ’’گر‘‘جائیں پیداوار میں’’ کمی ‘‘نہیں کی جائے گی۔ سننے والوں کو حیرت کا ’’جھٹکا ‘‘لگالیکن پھر رفتہ رفتہ بات واضح ہوتی چلی گئی۔ دراصل اوپیک پر عملاً سعودی عرب کی’’ اجارہ داری ‘‘ہے۔ سعودی عرب کا عالمی سطح پر’’ حریف ملک‘‘ ایران اور داعش ہیں۔ اگر اوپیک اجلاس میں فیصلہ ہوجاتا کہ تیل کی قیمت ’’گری ‘‘ہے تو اس کی پیداوار بھی کم کردیں تو اس کا لازمی مطلب یہی نکلتا ہے کہ تیل نکالنے والے ملک اپنا نقصان کم سے کم ہونے دیںلیکن سعودی عرب ایسا ہرگز نہیں چاہتا۔ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ ایران، عراقی تیل پر قابض داعش اور روس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے۔ تیل کی قیمتیں کم رکھنے کی ایک دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ’’ شیل تیل‘‘ نکالنا چونکہ’’ مہنگا‘‘ پڑ رہا ہے، جب امریکا اور دوسرے ممالک شیل گیس نکال کر استعمال کریں گے تو وہ مہنگا پڑے گااس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ’’ مہنگا شیل‘‘ تیل چھوڑ کر سعودی عرب اور دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک سے خریدیں گے۔ سعودی عرب کا خیال تھاکہ خام تیل کی قیمت 70 ڈالر سے نیچے گر جائے تو نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے شیل تیل نکالنے والی کمپنیاں’’ گھاٹے‘‘ میں چلی جائیں گی جبکہ سعودی عرب جو کہ پرانے روایتی کنووں سے تیل نکالتا ہے وہ 30 ڈالر تک کی کم قیمت پر بھی ’’منافع ‘‘میں رہتا ہے۔ لیکن اب تو 26ڈالر تک آپہنچا، ظاہر ہے سعودی عرب چاہتا ہے اس کے مدمقابل آنے والی شیل تیل کی نئی کمپنیاں نقصان اٹھا کر منڈی سے’’ نکل‘‘ جائیں اور اس کی’’ اجارہ داری‘‘ پھر’’ مضبوط‘‘ ہوجائے۔اس طرح صرف چھ ماہ میں تیل کی قیمتیں تقریبا 55 فیصد کم ہوئی ہیں۔ کہنے کو تو دنیا’’یک قطبی‘‘ دور میں داخل ہوچکی ہے، مگر تیل کی قیمتوں نے دنیا کو’’تین واضح حصوں‘‘ میں’’ بانٹ‘‘ دیا ہے۔ ان میںپہلا حصہ ان ملکوں پر مشتمل ہے جو تیل برآمد کرتے ہیں مگر انہوں نے زر مبادلہ کے اتنے ذخائر جمع کررکھے ہیں کہ اگلے ایک عرصے تک وہ تیل کی جتنی مرضی کم ہو جائے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ پاکستان کے 70 فیصد علاقے میں شیل گیس اور تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ’’ شیل گیس‘‘ سے بھی’’ مالا مال‘‘ ہے۔ اس وقت پاکستان سالانہ’’ 11 ارب ڈالر‘‘ تیل کی خریداری پر’’ خرچ‘‘ کررہا ہے۔ اگر شیل گیس کے ذخائر نکالے جائیں تو پاکستان توانائی کے حوالے سے ’’خود کفیل‘‘ ہوسکتا ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث پاکستان میں رواں مالی سال 2015-16کے پہلے پانچ ماہ کے دوران حکومت کو2ارب89 کروڑڈالر کی ’’بچت ‘‘ہوئی ہے،اس کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات پر’’ٹیکس ‘‘تاریخ کی بلندترین سطح پرپہنچ گیاہے۔عالمی توانائی ادارے آئی ای اے کی رپورٹ کے مطابق بین الاقومی مارکیٹ میں رواں سال کے آخر تک خام تیل کی سپلائی طلب سے’’ زائد‘‘ رہے گی جس کے پیش نظر تیل کی قیمتیں مزید کم ہونگی۔تفصیلات کے مطابق رواں مالی سال جولائی تا نومبر کے دوران پاکستان کے خام تیل درآمدی بل میں میں 40 فیصد سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔مالی سال2014-15 میں خام تیل کے درآمدی بل کاحجم 6 ارب69کروڑڈالرتھا جو کہ رواں سال کم ہوکر 3 ارب 80 کروڑڈالرہوگیاہے یعنی رواں مالی سال کے 5 ماہ کے دوران حکومت کو2ارب89 کروڑڈالر کی بچت ہوئی ہے۔اس تمام صورت حال کے باجود پاکستانی عوام کوسستے پیٹرول کا کوئی فائدہ نہیں ہوا،گزشتہ سال میں حکومت نے پیٹرول محض2روپے سستا کیا حالانکہ اگر حکومت’’ 15روپے ‘‘بھی سستا کرتی تو حکومت پھر بھی خسارے میں نہیں تھی لیکن حکومت ایک ہاتھ سے دیکر دوسرے ہاتھ سے جی ایس ٹی ٹیکس لگا کر وصول کر لیتی ہے ۔2014ء سے لیکر اب تک خام تیل کی قیمت میں 75فیصد کمی ہوئی ہے لیکن قوم کو اس کا 10فیصد بھی فائدہ نہیں دیا گیا حکومت اب بھی تیل پر’’ 34روپے ‘‘ٹیکس وصول کر رہی ہے جب تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو تمام اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں اور کرائے’’ یکدم ‘‘بڑھا دے جاتے ہیں ۔لیکن اب تیل کی قیمت’’ 75فیصد ‘‘کم ہوئی ہے تو اس کا فائدہ عوام کو نہیں دیا گیا اس وقت بھارت میں بھی پڑول کی قیمتیں ہم سے کم ہیں ۔ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد عالمی مارکیٹ میں’’ 13سال ‘‘میں پہلی بار خام تیل کی قیمت26ڈالر سے نیچے آ گئی،ایرانی تیل کی عالمی منڈی میں آنے کے بعد قیمتوں میں مزید کمی کا امکان ہے تیل کی قیمتوں میں کمی سے امریکہ اور ایران کو جان کے’’ لالے ‘‘پڑ گئے،کئی امریکی کمپنیاں’’ بیٹھ‘‘ گئیں ،روس کو بھی اپنے جاری بجٹ پر’’ نظر ثانی‘‘ کرنا پڑے گی،روسی آمدن کا آدھے سے زیادہ حصہ تیل اور گیس پر’’ ٹیکس ‘‘سے حاصل ہوتا ہے، وفاقی بجٹ تیل کی قیمت 50ڈالر فی بیرل کی بنیاد پر منظور ہوا تھا،امریکا میں تیل کے بحران میں شدت چین کی جانب سے تیل کی’’ کھپت‘‘ میں کمی کے باعث ہوا، سعودی عرب چین کے بحران سے قبل ہی تیل کی پیداوار کو مستحکم رکھنے میں کامیاب رہا،قرض پر واجب الادا سود کی ادائیگی کے لئے بعض امریکہ کمپنیوں نے تیل ذخیرہ کرنے کا ’’حربہ ‘‘اختیار کر لیا۔اب ایران بھی عالمی مارکیٹ میں تیل فروخت کرسکے گا اور ایرانی تیل مارکیٹ میں آنے کے بعد خام تیل کی قیمت میں مزید کمی کا امکان ہے۔اس لیے حکومت دل کھول کر عوام کو ریلیف دے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024