زراعت پر ود ہولڈنگ ٹیکس : عوام اور سرمایہ کار کا استحصال‘ آڑھتی فائدہ اٹھائیں گے : ماہرین
لاہور (رپورٹ احسن صدیق) وفاقی حکومت کی جانب سے زراعت پر 3.5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائذ کرنے سے افراطِ زر کی شرح میں 10 فیصد اضافہ ہوگا جبکہ صنعتی پیداواری لاگت میں 3.5 فیصد بڑھ جائیگی۔ اسکا سارا بوجھ کسانوں پر یا صارفین پر پڑیگا۔ آٹا، دالیں، گھی، چینی، گوشت سمیت کھانے کی تمام اشیاءکی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ عوام کی قوتِ خرید کم ہوگی۔ حکومت کو کچھ ریونیو تو ملے گا لیکن عوام اور سرمایہ کار کا مالی استحصال ہوگا جبکہ آڑھتی فائدہ اٹھائینگے۔ حکومت نے آر جی ایس ٹی عائد کرنے میں ناکامی پر زراعت پر یہ ٹیکس عائد کرکے شب خون مارا ہے۔ آر جی ایس ٹی کے ذریعے 60 ارب روپے اکٹھے ہونے تھے۔ اب زراعت پر 3.5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے سے 94 ارب روپے اکٹھے ہونگے لیکن حکومت کو اس میں سے 50 فیصد سے بھی کم ریونیو ملے گا۔ باقی ریونیو انسپکٹرز اور آڑھتی ملکر کھائینگے۔ حکومت عوام پر مالی بوجھ ڈالنے کی بجائے براہ راست ٹیکسوں پر فوکس کرے تاکہ جو جتنا کمائے اتنا ٹیکس ادا کرے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے ”زرعی پیداوار پر 3.5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر اثرات“ کے موضوع پر مجلس مذاکرہ میں کیا ہے۔ میزبانی کے فرائض انچارج ایوان وقت خواجہ فرخ سعید نے انجام دئیے۔ لاہور ایوان صنعت و تجارت کے صدر شہزاد علی ملک نے کہا ہے کہ 3.5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے سے زرعی اجناس چاول، گندم، آٹا، گھی، چینی، دالیں جو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے باہر ہیں، مزید مہنگی ہوجائینگی۔ اسکے علاوہ صنعتی پیداواری لاگت فوری طور پر 3.5 فیصد اضافہ ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق افراطِ زر کی شرح جو اس وقت تقریباً 16.8 فیصد ہے، 26.8 فیصد تک پہنچ جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکس کیخلاف نہیں لیکن حکومت ٹیکس عائد کرنے سے پہلے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے اور اسکا طریقہ کار وضع کرے۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی برادری نے آر جی ایس پر حکومت سے مذاکرات کرے اسے موخر کرایا تھا۔ اب حکومت آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینے کی بجائے ود ہولڈنگ ٹیکس کو بھی موخر اور اس ٹیکس کے حوالے سے بھی کسانوں سے مشاورت کرے۔ کسان اپنا مال آڑھتیوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔ اس ٹیکس کے باعث آڑھتی زمیندار سے 3.5 فیصد ٹیکس بھی کاٹے گا۔ یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے پالیسی ساز زمینی حقائق کو مدنظر کیوں نہیں رکھتے ہیں۔ یورپی یونین، امریکہ اور بھارت اپنے کسانوں کو براہ راست اور بلواسطہ سبڈیز دے رہے ہیں۔ ہماری حکومت کو بھی اپنے کسانوں کو سہولتیں دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی استحکام کیلئے حکومت قلیل، درمیانی اور طویل مدت کی پالیسیاں بنائے اور قلیل مدت میں زراعت کا شعبہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ چینی اس وقت صنعتی ترقی کررہا ہے لیکن انکا آغاز زراعت سے تھا۔ ہمیں بھی یہ ماڈلز اپنے چاہئیں۔ زراعت پر فوکس کرنا چاہئے، کہنے کو ہم زرعی ملک ہیں لیکن ملکی ضرورت سے کم کپاس پیدا ہوتی ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ اِن ڈائریکٹ ٹیکس کی بجائے براہ راست ٹیکس عائد کئے جانے چاہئیں کیونکہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں سے اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، عوام کی قوتِ خرید متاثر ہوتی ہے۔ میرے خیال میں ملک میں بنیادی ایشو پالیسی کا ہے کہ ابھی تک اسکا تعین نہیں کیا جاسکا کہ غلہ اگانا ہے یا اسے درآمد کرنا ہے۔ اگر حکومت فوڈ سکیورٹی چاہتی ہے تو توجہ غلہ کی پیداوار بڑھانے پر رکھنی ہوگی اور اگر ایسی فصلیں اگانا چاہتی ہے جن کی عالمی مارکیٹ میں مانگ ہے تو پھر غلہ امپورٹ کرنا پڑیگا۔ زرعی اجناس پر ٹیکس عائد کرنے سے چھوٹے کسانوں کے پاس اگلی فصل کاشت کرنے کیلئے پیسہ ہی نہیں رہے گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عوامی حکومت غیرعوامی فیصلے کیوں کررہی ہے۔ حکومت بیوروکریسی کے مشوروں پر آنکھیں بند کرکے عملدرآمد نہ کرے۔ ایگری فورم پاکستان کے چیئرمین ابراہیم مغل نے کہا کہ حکومت نے زرعی اجناس پر 3.5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرکے زراعت پر شب خون مارا جس میں ”پرسن“ کے لفظ کو گرودر اینڈ پروڈیوسر سے تبدیل کردیا گیا۔ حکومت نے جب آر جی ایس ٹی عائد کرنے پر اپنی ناکامی دیکھی تو خاموشی سے اسے جاری کردیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کسانوں کو زرعی اجناس اور لائیو سٹاک کی مد میں مجموعی طور پر 93.88 ارب روپے کا ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا پڑیگا۔ فصلوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ گندم پر 2 ارب روپے، چاول پر 10 ارب روپے، دالوں پر 75 کروڑ روپے، سبزیوں پر 11 ارب روپے، پھلوں پر 13 ارب روپے، گوشت جس میں بکرے، گائے اور مرغی شامل ہے، پر 10 ارب روپے، دودھ پر 22 ارب روپے، انڈوں پر 4 ارب روپے، گنے پر 5 ارب روپے، آئل سیڈز پر 88 کروڑ روپے، کپاس پر 18.5 ارب روپے، مکئی پر 3 ارب روپے، سورج مکھی اور کنولا پر ایک ارب روپے ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا پڑیگا۔ حکومت ترقیاتی بجٹ میں 100 ارب روپے کی کٹوتی کو واپس لے اور اسکی جگہ 450 ارب کے غیرترقیاتی اخراجات میں 50 فیصد کمی کرے۔