اصغر علی شاد
امر اجالا
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی جو ایک وقت میں ملک کی سب سے مقبول جماعت سمجھی جاتی تھی، آج داخلی خلفشار اور شدید تنازعات کا شکار ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف جماعت کا اندرونی ڈھانچہ کمزور ہو رہا ہے بلکہ ملک کے سیاسی استحکام اور سلامتی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ داخلی اختلافات کے ساتھ ساتھ انتشاری ٹولے کی جانب سے ملکی سلامتی کے خلاف چلائے جانے والے پروپیگنڈے نے بھی قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا ہے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کی کئی وجوہات ہیں، جن میں قیادت کا بحران، نظریاتی اور ذاتی اختلافات، اور جماعت کے مستقبل کے حوالے سے مختلف آرا شامل ہیں۔یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ عمران خان کی گرفتاری اور عدالتی مقدمات کے بعد پی ٹی آئی کو قیادت کے حوالے سے ایک شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف شاہ محمود قریشی اور اسد عمر جیسے سینئر رہنما قیادت سنبھالنے کے لیے میدان میں ہیں، تو دوسری جانب پارٹی میں موجود دیگر دھڑے بھی اپنی حیثیت مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس صورتحال نے پارٹی کو مزید تقسیم کر دیا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے اندر ایک واضح نظریاتی تقسیم بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ رہنما اور کارکنان پارٹی کی اصل نظریاتی بنیادوں پر قائم رہنے کے حامی ہیں، جبکہ کچھ مفاہمت اور نئے سیاسی اتحادوں کی تشکیل کے حق میں ہیں۔ اس نظریاتی اختلاف نے پارٹی کے فیصلوں پر گہرے اثرات ڈالے ہیں اور اس کی مقبولیت کو بھی متاثر کیا ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی میں داخلی انتشار کی ایک بڑی وجہ تنظیمی کمزوریاں بھی ہیں۔ جماعت کے کئی رہنماؤں پر الزامات ہیں کہ وہ پارٹی کے اندرونی فیصلوں میں شفافیت کو یقینی بنانے میں ناکام رہے۔ پارٹی میں موجود اندرونی اختلافات اور ذاتی مفادات نے اس کی عوامی ساکھ کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ یہ با ت خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ پی ٹی آئی کے داخلی اختلافات کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے عناصر بھی سرگرم ہیں جو ملکی سلامتی کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اوریہ پروپیگنڈہ مختلف طریقوں سے پھیلایا جا رہا ہے، جن میں سوشل میڈیا، بین الاقوامی میڈیا اور عوامی مظاہرے شامل ہیں۔علاوہ ازیں اسی ضمن میں سوشل میڈیا پر ملکی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی ایک لہر دیکھنے میں آئی ہے۔ خاص طور پر پی ٹی آئی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جاری سوشل میڈیا جنگ میں ملک کے حساس اداروں اور ان کی پالیسیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اکثر اوقات جعلی خبریں اور من گھڑت معلومات بھی پھیلائی جاتی ہیں، جو عوام میں بے چینی اور بداعتمادی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق بعض عناصر جان بوجھ کر بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے سیاسی اور عسکری اداروں کے خلاف بیانیہ بنا رہے ہیں۔ اس کا مقصد نہ صرف ملکی استحکام کو نقصان پہنچانا ہے بلکہ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کو بھی کمزور کرنا ہے۔ اس طرح کے پروپیگنڈے سے غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی منفی اثر پڑتا ہے اور پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی ضمن میں پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنما مختلف مواقع پر عوام کو احتجاج پر اکساتے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں میں انتشار کی کیفیت پیدا ہوئی۔ 9 مئی کے واقعات اس کی ایک بڑی مثال ہیں، جہاں سرکاری اور عسکری املاک کو نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح کے واقعات نہ صرف ملک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ اس سے پاکستان کے دشمنوں کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ریاستی ادارے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بجا طور پر مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سوشل میڈیا پر غلط معلومات کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے، جبکہ بیرونی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے بھی حکومتی سطح پر بیانیہ ترتیب دیا جا رہا ہے اورحکومت اور سیکیورٹی ادارے اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ کسی بھی جماعت یا فرد کو ملکی سلامتی کے خلاف سازش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مختلف رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں تاکہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکے۔پی ٹی آئی کے لیے مستقبل میں کئی چیلنجز ہیں، جن میں پارٹی کی اندرونی تقسیم کو ختم کرنا، عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا، اور ملکی سلامتی کے حوالے سے اپنے بیانیے کو واضح کرنا شامل ہیں۔ اس تما م صورتحال میں مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو درحقیقت ایک مستحکم اور ایمان دار قیادت کی ضرورت ہے جو داخلی اختلافات کو ختم کر کے پارٹی کو دوبارہ متحد کر سکے۔ قیادت کے فقدان کی وجہ سے کارکنان میں مایوسی پائی جاتی ہے، جو پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔علاوہ ازیں پی ٹی آئی کو ملکی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ماضی قریب میں اداروں کے خلاف جو بیانیہ بنایا گیا، اس سے پارٹی کو بھی نقصان پہنچا۔ اگر پارٹی اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتی، تو اسے مزید سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنا پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ پارٹی کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس تما م صورتحال کے تناظر میں پا کستان تحریک انصاف اس وقت تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ داخلی اختلافات اور قیادت کے بحران کے علاوہ ملکی سلامتی کے خلاف پروپیگنڈہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ پارٹی کو چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے، مثبت سیاست کو فروغ دے اور ملک کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ اگر پی ٹی آئی اپنی داخلی مشکلات پر قابو پانے میں ناکام رہی، تو نہ صرف جماعت بلکہ ملکی سیاست پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر پی ٹی آئی اور اس کی قیادت ماضی کا حصہ بن کر رہ جائے گی اور اس کی داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
پی ٹی آئی کی گرتی مقبولیت؟
Feb 25, 2025