حمید نظامی کی صحافتی زندگی

Feb 25, 2025

فیصل ادریس بٹ

آج بانیِ ’نوائے وقت‘ حمید نظامی کی 63 ویں برسی ہے۔ وہ 1962ء میں ایک بھرپور زندگی بسر کرنے کے بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ دنیا میں ایسے بہت کم انسان پیدا ہوتے ہیں جو مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کر چکے ہوتے ہیں۔ حمید نظامی ایسے ہی ایک ستارہ تھے جنہوں نے اپنی راہ کا تعین کر لیا تھا۔ صحافت کے میدان میں حمید نظامی ایک درخشندہ ستارہ ہیں جو آنے والے وقتوں میں ایک زندہ مثال بنے گا اور صحافی ان کی تقلید کرتے ہوئے ان کا راستہ اپنانے کی کوشش کریں گے۔ حمید نظامی کا شمار تحریکِ پاکستان کے ممتاز صحافیوں میں ہوتا ہے۔ آپ 3 جنوری 1915ء کو سانگلہ ہل (ضلع شیخوپورہ) میں پیدا ہوئے۔ وہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا پھر 1932ء میں اسلامیہ کالج لاہورمیں داخلہ لیا۔ 1938ء میں اسلامیہ کالج سول لائنز سے گریجوایشن کی۔ ان دنوں تحریک پاکستان زوروں پر تھی اور آپ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف) لاہور کے صدر تھے اس لیے آپ سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ حمید نظامی نے دورِ طالب علمی میں تحریر اور تقریر کے میدان سر کیے اور اپنے دور کے بہترین اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا۔
آپ قائد اعظم کے شعلہ نوا مقرر کہلائے اور علامہ اقبال کے ایماء پر پنجاب میں ایم ایس ایف کی تنظیم کی اور اس طرح قیادت کی ہر آنے والے دس سالوں میں نوجوان ایک جوالہ مکھی کی طرح اٹھے اور تحریکِ پاکستان کے قافلہ سالاروں کی صف میں نمایاں ہو گئے۔ حمید نظامی نے تحریک پاکستان کی جنگ اسلامیہ کالج لاہور کے محاذ سے لڑی۔ حمید نظامی نوجوانوں کے ہراول دستے کی کمان کر رہے تھے۔ حمید نظامی کو اپنی ذات سے زیادہ اپنی ملت کے مستقبل کی فکر تھی۔ حالانکہ حمید نظامی صاحب کو زمانہ طالب علمی میں اپنے مستقبل پر توجہ دینی چاہیے تھی لیکن انہوں نے اپنی ملت کے مستقبل کی فکر کو زیادہ اہمیت دی۔ اسلامیہ کالج میں ایک غریب ذہین اور محنتی نوجوان حمید نظامی کی صورت میں اسلامیہ کالج آیا۔ جس کی ہر ادا زبان حال سے کہہ رہی تھی ’میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو۔‘
1937ء میں کالج یونین کے سیکرٹری کے طور پر حمیدنظامی کو چنا گیا۔ اسی سال پنجاب ایم ایس ایف قائم ہوئی اور آپ کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ مرحوم حمید نظامی بااصول اور بامقصد زندگی کے قائل تھے۔ اس لیے آج بھی اس نعرہ کی شہادت لالہ لاجپت رائے ہال کے درو دیوار دیتے ہیں، ’ہاں ہم تقسیم ہند چاہتے ہیں!‘ یہ نعرہ حمیدنظامی نے آل انڈیا کانگریس کے زیر اہتمام ہونے والے ایک جلسہ میں لگایا تھا جس میں ڈاکٹر گوپی چند بھارگو، میاں افتخار الدین اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو تقریریں کر رہے تھے۔ ڈاکٹر کچلو نے جب مسلمان طلبہ کی واحد نمائندہ جماعت پنجاب ایم ایس ایف کے قیام کو رجعت پسندانہ اقدام قرار دیا تو اس جرأت مند نوجوان نے بھرے مجمع میں یہ نعرہ لگایا تھا۔ پنجاب ایم ایس ایف کے پہلے انتخاب میں حمید نظامی صدر منتخب ہوئے۔ فیڈریشن کے قائد کی حیثیت سے ان کا مقام مسلم لیگی حلقوں بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناح کے نزدیک بہت بلند تھا۔
انہوں نے ایم اے کرنے کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ حمید نظامی کے زمانہ صدارت میں فیڈریشن نے بہت سے کارنامے سرانجام دیے مگر ایک خدمت جو سب سے اہم ہے وہ طلبہ کی تربیت ہے کیونکہ مناسب تربیت اور نظم کے بغیر دنیا کا کوئی کام بھی بخوبی انجام نہیں پا سکتا۔ حمید نظامی کی زندگی کا دوسرا دور وادی صحافت میں جا نکلتا ہے۔ آپ کا جھکائو شروع ہی سے صحافت کی طرف تھا۔ آپ نے صحافت کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ 23 مارچ 1940ء کو آپ نے ماہنامہ ’نوائے وقت‘ نکالا جو بعد میں یعنی 1942ء میں ہفت روزہ ہو گیا اور 22 مارچ 1944ء کو روزنامہ کی حیثیت اختیار کر لی اور اس اخبار نے مسلم لیگ کی مکمل حمایت کی۔ اس کی پاداش میں ’نوائے وقت‘ کی 9 مارچ 1946ء میں دو ہزارروپے کی ضمانت ضبط کی گئی جو جمع کرا دی گئی۔
اپریل 1951ء میں دولتانہ وزارت کے عہد میں ’نوائے وقت‘ کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا اور پریس سیل کر دیا گیا لیکن آپ نے جہاد جاری رکھا۔ ان حالات میں جب ’نوائے وقت‘ کا چھپنا مشکل ہو گیا تو انہوں نے ’نوائے پاکستان‘ جاری کیا۔ آخر ایک سال بعد ’نوائے وقت‘ پھر شائع ہونا شروع ہو گیا۔ حالات کے جبر اور دباوکے باعث ان کی صحت خراب ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی مجید نظامی کو لندن سیواپس بلوا کر اخبار کی ادارت ان کو سونپ دی جنہوں نے اپنے بھائی کے مشن کو اس طرح آگے بڑھایا کہ دنیا نے انہیں معمارِ ’نوائے وقت‘ کا خطاب دیا۔ انہوں نے 50 سال تک اس اخبار کو سنبھالااور ملک کا اہم ترین اخبار بنا دیا۔ ان کے بعد آزادیِ صحافت اور نظریہ پاکستان کی حفاظت اور ترویج کا علم رمیزہ نظامی کے ہاتھ میں آیا تو انہوں نے حمید نظامی اور مجید نظامی کے لگائے اس درخت کی حفاظت کاحق ادا کر دیا اور آج یہ اخبار اپنی بے باک صحافت کا لوہا منوا رہا ہے جو اس کے بانی اور معمار کی محنت شاقہ کا ثمر ہے۔

مزیدخبریں