الیکشن کمیشن کی جانب سے این اے 75ڈسکہ کے انتخابات کالعدم قرار
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75ڈسکہ کے19فروری کو ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے18مارچ کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم دیدیا۔لیکشن کمیشن نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ تمام شواہد دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ انتخابی ماحول فراہم نہیں کیاگیا، حلقے میں انتخابات آزادانہ اور ایمانداری سے نہیں کرائے گئے ، ضمنی الیکشن کے دوران لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوئے اور ووٹرز کو ان کا حق مکمل طور پر فراہم نہیں کیاجاسکا، حلقے میں شفافیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا، فائرنگ،ہلاکتوں کیساتھ امن وامان کی خراب صورتحال رہی جس سے نتائج کے عمل کومشکوک اورمشتبہ بنایا گیا۔الیکشن کمیشن نے کہا آرٹیکل218(3)کے تحت ضمنی انتخاب کالعدم قرار دیاجاتاہے، این اے 75میں دوبارہ انتخابات 18مارچ 2021کوہوگا اور تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔جمعرات کو الیکشن کمیشن میں حلقہ این اے 75ڈسکہ میں دھاندلی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے سماعت کی۔ سماعت میں مسلم لیگ (ن)کی امیدوار نوشین افتخار کی نمائندگی کرنے والے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جن پولنگ اسٹیشن کے پریزایڈنگ افسران غائب ہوئے وہاں پولنگ کی شرح 86فیصد تک رہی۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات ہیں کہ معاملے کی تہہ تک تحقیقات کریں کہ ڈی ایس پی ذوالفقار ورک کی دوسری مرتبہ تعیناتی کا کون ذمہ دار ہے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پی ٹی آئی امیدوار کے سب سے بڑے سپورٹر نے کہا تھا کہ یہ ڈنڈے اور سوٹے کا الیکشن ہے، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ گاں میں ڈنڈے سوٹے تو ویسے بھی چل جاتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے رکن سندھ نے کہا کہ ویڈیو سے لگتا ہے ڈنڈے سوٹے کا لفظ محاورے کے طور پر بولا گیا تھا۔وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ غیر متنازع تمام 337پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کو روکا گیا۔وکیل نے کہا کہ نوشین افتخار نے ریٹرننگ افسر (آر او)کو جو درخواست دی اسے پڑھا جائے، نوشین نے 23پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی جبکہ آر او نے بھی اپنی رپورٹ میں بیس پولنگ اسٹیشنز کے نتائج تاخیر سے پہنچنے اور صرف 14پر ری پولنگ کی تجویز دی۔سماعت میں سلمان اکرم راجا نے متنازع 20 پولنگ اسٹیشنز کے ووٹوں کا فرانزک آڈٹ کرانے کی استدعا کی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہر الیکشن تنازع کا سیاسی اور میڈیا پہلو ہوتا ہے، جرمن فلاسفر نے کہا تھا شکار، جنگ اور الیکشن ہارنے کے بعد جھوٹ بولا جاتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ این اے75کے 360میں سے 337پولنگ اسٹیشنز کا کوئی تنازع نہیں، ریٹرننگ افسر نے قیاس آرائیوں کی بنیاد پر دوبارہ پولنگ کی سفارش کی، یہ کہنا درست نہیں کہ نتیجہ تاخیر سے آنے کا مطلب رزلٹ تبدیل ہونا ہے۔جو پر رکن سندھ نے کہا کہ جس انداز میں تاخیر ہوئی اس سے نتائج میں تبدیلی کا گمان ہو سکتا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پریزائڈنگ افسران کے آر او آفس پہنچنے کا کوئی وقت مقرر نہیں، صبح سے شام تک موبائل کی بیٹریاں ختم ہوجاتی ہیں جس پر رکنِ خیبرپختونخوا ارشاد قیصر نے کہا کہ کیا ڈرائیورز سمیت سب کی بیٹریاں ختم ہوگئی تھیں؟وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ انتخابی عملے کا دفاع نہیں کروں گا، جن کے نتائج میں تبدیلی نہیں ہوئی کیا ان کے موبائل آن تھے؟ پریزائڈنگ افسران کادیر سے آنا کوئی غیر قانونی چیز نہیں کہ اس پر دوبارہ الیکشن کرایا جائے۔چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ ووٹرز کے لیے خوف و ہراس کی فضا ہو تو کیا ہوگا؟ اگر ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ ووٹر ووٹ نہ ڈال سکے تو پھر کیا ہونا چاہیے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بہتر تھا ریٹرننگ افسر نتائج کا اعلان کرتے، نتائج کا اعلان ہونے کے بعد ٹربیونل سے رجوع کیا جا سکتا تھا، کسی پریذائڈنگ افسر نے اغوا ہونے یا نتیجہ تبدیل کرنے کا نہیں کہا، انکوائری کرنا الیکشن کمیشن نہیں ٹربیونل کا کام ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ علی اسجد کے پارٹی سربراہ نے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا بیان دیا۔رکن سندھ نے کہا کہ کیا 10پریزائڈنگ افسران کے لاپتا ہونے کا مطلب قانون کی صریحا خلاف ورزی نہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کے لیے کمیشن کو پہلے قرار دینا ہوگا کہ پریزائڈنگ افسران نے جھوٹ بولا۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سال 2018کے عام انتخابات میں فارم 45کا مسئلہ سامنے آیا تھا لیکن الیکشن کمیشن کو فارم 45نہ ملنے کی شکایت نہیں آئی۔سماعت میں پی ٹی آئی امیدوار علی اسجد ملہی نے کہا کہ مریم نواز نے رات 12:30بجے ہی فتح کا اعلان کر دیا تھا، کئی بار الیکشن ہارنے پر پولنگ ایجنٹس فارم 45کی کاپی نہیں لیتے۔دوران سماعت ممبر پنجاب الطاف ابراہیم قریشی نے علی اسجد ملہی کو ڈانٹ دیا۔ ممبر پنجاب نے کہا کہ آپ نے جرسی اپنے گلے میں لٹکائی ہوئی ہے جو مناسب انداز نہیں، باہر جا کر جرسی اتاریں اور آکر بولیں۔ علی اسجد ملہی نے الیکشن کمیشن سے معذرت کر کے باہر جاکر جرسی اتاری۔بعد ازاں الیکشن کمیشن نے 19فروری کو ڈسکہ کے این اے75میں ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے این اے75میں18مارچ کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم دیدیا۔لیکشن کمیشن نے این اے75ضمنی الیکشن پر فیصلہ سناتے ہوئے (ن) لیگ کی درخواست منظور کرلی اور حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنز پر ری پولنگ کا حکم دے دیا۔الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ تمام شواہد دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ انتخابی ماحول فراہم نہیں کیاگیا، حلقے میں انتخابات آزادانہ اور ایمانداری سے نہیں کرائے گئے ، ضمنی الیکشن کےدوران لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوئے اور ووٹرز کو ان کا حق مکمل طور پر فراہم نہیں کیاجاسکا۔فیصلے میں کہا گیا کہ حلقے میں شفافیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا، فائرنگ،ہلاکتوں کیساتھ امن وامان کی خراب صورتحال رہی، خراب صورتحال کے باعث ووٹرز کیلئے ہراسمنٹ کا ماحول پیداہوا، جس سے نتائج کے عمل کومشکوک اورمشتبہ بنایا گیا۔الیکشن کمیشن نے کہا آرٹیکل218(3)کے تحت ضمنی انتخاب کالعدم قرار دیاجاتاہے، این اے 75میں دوبارہ انتخابات 18مارچ 2021کوہوگا اور تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن میں مذکورہ حلقے میں ضمنی انتخاب کے دوران مبینہ دھاندلی کے خلاف دائر کردہ درخواست میں مسلم لیگ (ن)کی امیدوار نوشین افتخار نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ان 20پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی تھی جن کے نتائج روکے گئے تھے۔