ستارہ ٔ صحافت

صحافت کی دنیا میں باوقار اور سربلند دو ایسی شخصیات ہیں( حمید نظامی اورڈاکٹرمجیدنظامی ) جو پاکستان کا فخر ہیں۔ اپنے نظریے اور وطن سے محبت کرنے والی سچی شفافیت سے بھرپور زندگی گزارنے والی ان ہستیوں کو قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔حمیدنظامی کے جذبہ حب الوطنی کا نوجوان نسل پہ بھی بہت اثر تھا ان کی ایک آواز پہ لبیک کہتے ہوئے نوجوان نسل نے تحریک پاکستان کو وہ جلا بخشتی کہ دشمنوں کے پسینے چھوٹ گئے۔ تحریک پاکستان کا عَلم، اس کانظریہ اس کی جدوجہد اور اس سے لگن کا جنون، لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان کے نعروں سے گونج اٹھا۔
آج جس اخبار(نوائے وقت) میں آپ میرا کالم پڑھ رہے ہیں اس اخبار سے پہلے جو اخبارات نکل رہے تھے ذرا اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
کوہ نور1850میں لاہور پنجاب سے شائع ہوا۔1863میں گوپی ناتھ پنڈت اور مکھنڈرام پنڈت نے اخبار نکالا۔بیسویں صدی میں پیسہ اخبار نکلا جو محبوب عالم نے شروع کیا تھا، اس کے بعد زمیندار اخبار مولانا ظفرعلی خان جوکہ ان کے والد گرامی نے نکالا تھا لاہور لے آئے اور اسے روزنامہ بنادیا۔ پھر وطن اخبار مولوی انشاء اللہ خان نے نکالا،1927ء میںمولانا غلام رسول مہر نے روزنامہ انقلاب کا اجراء کیا ،اسی طرح ستارہ صبح، شہبازاور احسان بھی نکالاگیا۔ راقمہ نے اتنی بڑی تمہید اس لیے باندھی کہ آپ سب پر واضح ہوگاکہ نوائے وقت کن حالات میں اور کیسے شروع ہوا اور اس کی ہمہ گیریت سے ہم کیوں انکار نہیں کرسکتے۔ ایک شخص فرد واحد ہوتاہے مگر اس کا نظریہ، احساس، وفا، لگن اور کردار اسے خورشید جہاں بنادیتاہے۔ حمیدنظامی مرحوم سچے عاشق رسول اور جان پر کھیل کر وطن کی حرمت وعظمت کو بیان اور بلند کرنے والے نے اپنے قائد محمدعلی جناح بانی پاکستان کی آرزو پر1940کو نوائے وقت اخبار نکالنے کا اعلان کردیا۔ حمیدنظامی سمجھتے تھے کہ صحافت کی شمع سچائی، بہادری، بے باکی، جنون، نظریات اور قربانیوں کے لہو کاتیل مانگتی ہے۔ صحافت کے یہ تمام اوزار ان کے تن ومن کا اثاثہ تھے۔ قائداعظم کی قیادت، مادرملت کی رفاقت اقبال کے نوجوان طلباء وطالبات کا جذبہ اس تحریک کو رفعتوں پہ نظرآ رہا تھا، برصغیر کی صحافت کو انگریز سامراج ہندو صحافیوں کی سازشوں، کینہ پرور خصلت اوربغل میں چھری منہ میں رام رام اور انگریزوں کا مسلمانوںکوغلام بنائے رکھنے کے تصور نے ایک جنگی صحافت بنادیاتھا ۔دنیا کا کوئی بھی کاروبار یا تعلقات تھوڑے بہت ہیر پھیر یا ناجائز مراعات کے بناء پروان چڑھانا اس وقت بھی مشکل سمجھا جاتاتھا(اب تو انتہائی ناگزیر ہے)۔اس ضمن میں تمام اخبارات کے مالکان کہیں نہ کہیں حالات اور بہتی ندیا کا دھارا دیکھتے ہوئے اس میں اپنی ضرورت کی گاگر بھرلیاکرتے اورتحریک پاکستان سے بغض رکھنے والوں کے منظور نظر بن جاتے مگر آفرین ہے اس مرد مجاہد بانی نوائے وقت اور بابائے صحافت حمیدنظامی مرحوم کہ جنہوں نے دریا میں رہ کے مگر مچھوںسے بیرلیا اور ان کے حلقوم کے زہر سے اپنے نظریے اپنی صحافت اور اپنے وطن کو محفوظ رکھا، اپنے نوجوانوں اور تحریک پاکستان سے تعلق رکھنے والی تمام تنظیموں قائداعظم محمدعلی جناح کے جذبے کی نظریاتی اساس کو یونیورسٹی کے طلباء کو ان کی لگن اور جوش وخروش کو اپنے اخبار کے ذریعے گھر گھر پہنچایا۔
حمیدنظامی مرحوم کا ہرچٹان کے سامنے سینہ سپر ہونے کے علاوہ ،تحریک پاکستان کے راہنما، قائداعظم کے دست راست ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے۔ تحریک آزادی کو موثرآواز دینے والے حمیدنظامی نے مولانا ظفرعلی خان کے ساتھ مل کر تہلکہ مچادیا۔
جمہوریت کے علمبردار حمیدنظامی ہمیشہ نظریہ پاکستان کا پرچار کرتے رہے۔ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کی بنیاد میں سچ و حق کا بیج بودیا، وہ صحافی کو معاشرے کا تن آور درخت سمجھتے تھے جس سے پھل اور سائے کی امید جلاپاتی ہے، مسلم لیگ نے ایسے جھنڈے گاڑھے کہ کانگریس گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور پاکستان دنیا کے نقشے پہ اسلام جموریہ پاکستان کے نام سے ثبت ہوگیا۔
قارئین صحافت اور سچائی کا جہاں بول بالا ہوگا وہاں پہ حمیدنظامی مرحوم کا نام مہ کامل بن کے چمکے گا۔عوام اور ملت کیلئے جان کی بازی لگانے سے نہ گھبرانے والے ایسی نابغہ روزگار ہستیاں کہاں ملتی ہیں ان کی دانش وحکمت کے سامنے دشمنان اسلام کی تمام چالاکیاں ہیچ ہوئیں ، تحریک پاکستان، حمیدنظامی اور ان کا اخبار نوائے وقت ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم تھے۔ تحریک پاکستان کے وقت کے لکھے ہوئے ان کے اداریے ان کی عالمانہ فکر، بامعنی، دور اندیشی ، حکمت اور تلوار کی کاٹ سے بھرپور آج بھی موثرنظرآتے ہیں۔دوقومی نظریے کی مشعل ہر محب وطن، محب اسلام کے دل میں ان کی وجہ سے روشن ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اس حوالے سے آج بھی ہمہ گیر افادیت کا حامل ہے ان کاکہنا تھا کہ ’’دو قومی نظریہ کو ہمہ وقت تازہ اور زندہ رکھ کر ہی قیام پاکستان کے مقاصد کو کامیابی سے ہمکنار کیاجاسکتاہے اور انگریز وہندو کے استحصالی نظام کی بدولت پیدا ہونے والی غلامانہ ذہنیت کو قومی اور ملی خود مختاری کی سوچ میں تبدیل کرکے شاہراہ ترقی پرگامزن ہوا جاسکتاہے‘‘۔
نوائے وقت کی اردو زبان نے بھی یہ احساس اجاگرکیا ہم اپنی قومی زبان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اظہرمن الشمس ہے کہ نوائے وقت کے لکھاریوں میں ہمیشہ پائے کے ادیب رہے، جنہوں نے ہمیشہ اردو زبان سے انصاف کیا، مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد (مرحوم) صبح اخبار لے کے بیٹھا کرتے تھے ، مجھے اخبار تھماکر کہتے مجھے پڑھ کر سنائو، غلط پڑھنے پر ہجے کرکے پڑھنے کو کہتے، یوں چند ماہ میں اردو زبان کی روانی نے میرے اندر کہانیاں لکھنے اور خبریں بنانے کا شوق پیدا کردیا۔ نوائے وقت اور اس کے ساتھ جڑا ہوا نام اور شخصیت حمیدنظامی(مرحوم) آج بھی یاد آتے ہیں تو دل سے آواز آتی ہے کہ جمہوریت پہ شب خون مارنے کی اجازت نہ دینے کیلئے چٹان بن کر مسلمانوں کیلئے کھڑے ہونے والے اور ببانگ دہل قاتلوں کو قاتل، مظلوموں کو مظلوم کہنے والے کلمہ حق بلند کرنے والے آپ تو کہا کرتے تھے کہ
ظلمت کو ضیائ، صرصر کو صباے بندہ کو خداکیا لکھنا
پتھر کو گوہردیوار کو در،کرگس کو ہُما کیالکھنا