تحریکِ و نظریہ پاکستان کا بے تیغ سپاہی

حضرت علامہ اقبال نے بہت اپنے ایک شعر کہا تھا …؎
آئین جوانمردی حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی
یہ شعر جن حضرات پر صادق آتا ہے ان میں سے ایک جناب حمید نظامی مرحوم بھی ہیں۔ انہیں اگر ہم شہیدصحافت بھی کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ ساری زندگی صحافیانہ امور کی انجام دہی میں ہر آمر ہر جابر کے سامنے ڈٹ جانے والی یہ شخصیت کئی بار اپنے صحافتی مشن کو برقرار رکھنے کی خاطر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنی۔ مگر کوئی ظالمانہ ہتھکنڈہ انہیں سچائی کی راہ سے نہیں ہٹا سکا۔ وہ چپ چاپ خون جگر پیتے رہے۔ پرورش لوح قلم کرتے رہے۔ مگر کب تک آخر وہ بھی انسان تھے بالآخر ایوبی دور آمریت میں حبس زدہ گھٹن زدہ ماحول میں بالآخر وہ اپنا دل ہار بیٹھے اور جان سے گزر گئے۔ مگر ان کا قلم اقبال کے فرمان کے مطابق جوانمردی سے حق گوئی و بے باکی کی راہ سے ذرا بھر بھی نہیں ہٹ سکا۔ اگر ہم حمید نظامی کی زندگی پر نظر ڈالیںتو وہ ہمیں بھرپور زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں۔ تحریک پاکستان میں وہ بطور طالب علم نظریہ پاکستان کے کامیاب پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایم ایس ایف کے اولین دستے میں وہ ایک متحرک رہنما کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ وہ اسی دور میں قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کی نظروں میں اعتماد حاصل کر چکے تھے۔ ان کی تعلیمی زندگی کا دور مسلم لیگ اور نظریہ پاکستان کے فروغ کے لیے قیام پاکستان کی جدوجہد کے لیے وقف رہا۔ اس کے باوجود وہ ایک اچھے طالب علم رہے۔ انہوں نے اس موقع پر ہندو سکھ اور انگریز گٹھ جوڑ کے مقابلے میں مسلم لیگ کے نظریات اور ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے مسلم طلبہ کو نہایت محنت کے ساتھ نظریہ پاکستان کے لیے کام پر وقف کیا۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل ہی جناب حمید نظامی میدان صحافت میں قدم رکھ چکے تھے۔ 1940ء میں جب قیام پاکستان کی جدوجہد کا اعلان ہوا تو اس وقت نوائے وقت کا اجرا عمل میں آ چکا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب برصغیر کے اردو صحافیوں میں عبدالمجید سالک ، آغا شورش کاشمیری ، مولانا ظفر علی خان اور غلام رسول مہر کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی موجودگی میں حمید نظامی نے 1940ء میں قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر مسلم لیگ کے ترجمان کے طور پر جب نوائے وقت کا اجرا کیا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ بے سرو سامانی کی حالت میں شروع ہونے والا یہ اخبار حقیقت میں نظریہ پاکستان اور پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کا محافظ بن کر پاکستان دشمن عناصر کے سامنے کوہ گراں بن کر ڈٹ جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نظریہ پاکستان سے لے کر قیام پاکستان اور پھر اس کے بعد تحفظ پاکستان کے لیے اپنے قلم سے جو جہاد جناب حمید نظامی نے کیا وہ پاکستانی صحافت کی تاریخ کا سنہری باب ہے۔ جناب حمید نظامی کی ساری زندگی دوریشانہ رنگ میں رنگی رہی ، وہ کسی حکمران سے ناجائز کیا جائز مفاد بھی حاصل کرنے سے کوسوں دور رہے جبکہ اس دور میں بڑے بڑے صحافی بھی خود کو اس سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے قلم کی کاٹ تلوار سے کہیں زیادہ سخت اور تیزرہی۔ خرابی صحت ذہنی دبائو اور آمریت کے منفی ہتھکنڈوں کے باوجود حمید نظامی کا قلم کہیں رکا نہیں۔ وہ پاکستان اور اس کے مظلوم عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتے رہے۔ خاص طور پر جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے ایک فوجی آمر جنرل ایوب خان کو جو بزور طاقت پاکستان کی باگ ڈور سنبھالے بیٹھے تھا للکارا اوراس کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ دنیا نے دیکھا اخبارات کی تاریخ گواہ ہے۔ جناب حمید نظامی نے کس طرح مادر ملت کا ساتھ دیا۔ یہ نوائے وقت کے بانی کی للکار تھی جس نے ایوبی آمریت کے سینے میں شگاف ڈال دیا ، یہاں وہی …؎
ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی ازل سے رہاہے قلندروں کا طریق
والا اقبال کا سرمدی مصرعہ حمید نظامی کی رہنمائی کرتا رہا اور وہ ڈٹے رہے۔ مالی نقصان برداشت کئے مگر حق کا حق ادا کیا۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی کا راز یہاں کے عوام کے اتحاد اور ان کی خوشحالی میں پوشیدہ ہے اس لئے ان کا قلم اور اخبار عوامی مسائل کی ترجمانی بے باکی سے کرتا رہا جس سے حکمرانوں اور انکے کارپردازوں کی ماتھوں پر شکنیں اُبھر آتیں تھیں مگر وہ حمید نظامی کے قلم کو روک نہ سکے۔ ایوبی آمریت کے ظلم و جبر نے معصوم و نازک دل رکھنے والے اس عظیم صحافی کے دل کو توڑ کر رکھ دیا اور انہوں نے اس حالت مرگ میں بھی اپنا مشن فراموش نہیں کیا اور نوائے وقت کا قیمتی اثاثہ اپنے بھائی مجید نظامی کے توانا ہاتھوں میں سونپ کر وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ مگر ان کے قلمی جہاد کو تاریخ پاکستان اور اردو صحافت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔