نوائے وقت آئینہ پاکستان
پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران
پاکستان جیسے ملک میں جہاں بات کو مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی روایت نہیں ہے ایسے ملک اور ایسے حالات میں حمید نظامی کا اس پائے کا صحافی ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھے اور ان کی جرأت اور بے باکی کے بارے میں میرے والد صاحب (سید شبیر حسین شاہ 3 اپریل 1918ء …5 جولائی 2003ء ) مجھے اکثر بتایا کرتے تھے کہ حمید نظامی جیسا سچا اور کھرا صحافی میں نے کبھی نہیں دیکھا اور والد صاحب ان کے اندازِ تحریر کے بھی مداح تھے۔ کہتے تھے کہ حمید نظامی جیسا ’’اداریہ‘‘ کوئی نہیں لکھ سکتا، ہر لفظ اپنی جگہ نپا تُلا ہوتا ہے اور کوئی فالتو لفظ نہیں ہوتا۔
میرے والد صاحب حمید نظامی کو کالج کے زمانے سے جانتے تھے اور دونوں کا ایک ہی پیشہ یعنی صحافت سے تعلق تھا اور اس پرمستزاد یہ کہ دونوں ہی نظریاتی افراد تھے۔ حمید نظامی کی بیوقت موت کا سن کر میرے والد صاحب بہت افسردہ ہوئے۔ جب انہیں حمید نظامی کی وفات کی اطلاع ملی تو انہوں نے پنجابی زبان میں بار بار یہ کہا کہ: بڑا نقصان ہوئیا اے ، بہت نقصان ہوئیا اے، بار بار یہ بات کہہ رہے تھے کہ ’’بڑا قیمتی آدمی تھا‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں صحافت پہ جو پابندیاں تھیں، حساس اور حق بات کہنے والے لوگ اس کا اثر زیادہ لیتے تھے۔ صدر ایوب کا مارشل لاء بہت بڑا اور سخت مارشل لاء تھا، اس وقت ہم چھوٹے تھے ، مگر اب جب میں واپس دیکھتا ہوں تو اس بات کا گماں گزرتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہ جو حمید نظامی کا حکومت کے ساتھ تصادم تھا اس کا اثر ضرور ہوا ہو گا ، وہی ان کی موت کا سبب بنا ہو گا۔
حمید نظامی کا پاکستان پر بہت بڑا احسان ہے، انہوں نے پاکستان کی بہت بڑی خدمت کی ہے کہ وہ ہر دور میں نظریۂ پاکستان کا دفاع کرتے رہے۔ اس کام کے لیے بڑا دل گردہ بھی درکار ہے اور نظریۂ پاکستان کے ساتھ محبت بھی ضروری ہے۔ حمید نظامی کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ پائے کے صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مدبّر سیاست دان بھی تھے ، یہ سچ ہے کہ اگر صحافت کا مقصد جمہوری قدروں کا دفاع ہے اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہے تو پھر ایک صحافی ان نظریات کے دشمن اور نظریۂ پاکستان کے دشمن کے خلاف سیاست کے ذریعے ہی اپنا کام انجام دے سکتا ہے۔ ان کی مخالفت میں ازخود سیاست آ جاتی ہے۔ ان کے مؤقف کو رد کرنا سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔
ملک و ملت کی تمام تر خدمت کے ساتھ ساتھ حمید نظامی نے جو کردار ’’حزبِ اختلاف‘‘ کے قیام میں ادا کیا ہے وہ ناقابلِ تعریف ہے۔ یہ واقعی اُن کا ملک و ملّت پر عظیم احسان ہے۔ یہ اس لیے ضروری تھا کہ کہیں عوامی نمائندے کسی اور کے اشاروں پر نہ چلنا شروع کر دیں۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت مجید نظامی صاحب نوائے وقت کے ایڈیٹر تھے جب صحیح معنوں میں مجھے احساس ہوا کہ یہ کیا ہے۔ نوائے وقت نے ہمیشہ صحیح بات کے لیے مضبوطی سے لکھا ہے اور صحیح بات کو اپنے کالموں میں جگہ دی ہے اور اب بھی میں دیکھ رہا ہوں کہ اکثر اخبارات کے مالکان امریکہ کے ہاتھوں بِک چکے ہیں اور پاکستان کے مفاد کو امریکہ کے مفاد پر قربان کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے اخبارات میں امریکہ پر تنقید نہیں چھپ سکتی، سوائے نوائے وقت کے ۔ بے شک آپ مختلف اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ نوائے وقت کے علاوہ کوئی ایسا اخبار نہیں ہے جس میں آپ کو امریکہ پر تنقید دیکھنے کو ملے ، اس اخبار میں صحت مند اور درست حقائق پر مبنی تنقید ہوتی ہے۔
جابر حاکم کے سامنے کلمۂ حق کہنا بڑا مشکل کام ہے ، جابر حاکم کیا جی ! جب ہم روزمرہ زندگی میں مل بیٹھتے ہیں تو بات کو نرم کر دیتے ہیں، بعض دفعہ دامن بھی بچا جاتے ہیں… مگر یہ کام حمید نظامی اور اُن کے بھائی مجید نظامی نے کر دکھایا۔ ان دونوں بھائیوں نے زمینی خدائوں سے ٹکر لی اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ بقول شاعر
عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خدائوں سے اُلجھ بیٹھا ہوں
انہوں نے مارشل لاء نما جمہوریت کو بھی کبھی معاف نہیں کیا۔ اس بات کی گواہی تاریخ کے اوراق دے رہے ہیں کہ انہوں نے تاجِ سکندری پر تھوکا اور درویشی و قلندری کو گلے لگایا۔ پاکستانی صحافت کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو یہی حضرات قلندر لاہوری علامہ اقبال کے معنوی فرزند ہیں جنہوں نے اقبال کے افکار کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ تھوڑی مدت کے لیے آپ چمکیں اور اس کے بعد آپ کی شہرت کا چراغ بجھ جائے یا زندگی مہلت نہ دے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان جب سے بنا ہے تب سے آج تک یہ اخبار اسی طرح چل رہا ہے۔ پہلے ایک بھائی نے مشعل اٹھائی تھی پھر دوسرے بھائی نے اور اب یہ مشعل رمیزہ مجید نظامی کے ہاتھوں میں ہے۔
نوائے وقت اس وقت جمہوری قدروں اور نظریۂ پاکستان کا ایک بہت بڑا قلعہ ہے۔ یہ آزادیٔ صحافت کا ایک بہت بڑا چراغ ہے…سب سے بڑھ کر، یہ اخبار پاکستان اور پاکستانیت کا وہ واحد آئینہ ہے کہ جس میں جھانک کر اس ارضِ پاک کی اصل تصویر کو صاف اور شفاف صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میں یہ دیکھ رہا ہوںکہ مختلف مالکان بِک چکے ہیں۔ امریکہ کے بارے میں کوئی تنقیدی مضمون نہیں لکھ سکتا اور نہ شائع کیا جا سکتا ہے کسی اور اخبار میں سوائے نوائے وقت کے۔ میں چاہتا ہوں کہ مستقبل میں بھی نوائے وقت اسی طرح کام کرتا رہے جس طرح نظامی برادران نے کیا! تاکہ دنیا پاکستان کے اصل نکتۂ نظر سے آشنا ہوتی رہے۔