حمید نظامی مرحوم اعلیٰ صحافتی اقدار کے علمبردار

لیل و نہار کا تسلسل ہفتوں میں ڈھل کر مہینوں تک پہنچتا ہے یہ مہینے مل کر سال بنتے ہیں اور آخر کار یہ سال اپنے ملاپ کو انتہا پر جا کر صدیوں کو جنم دیتے ہیں اور اس سفر میں سب کٹھن مرحلے لمحے سے دو چار ہوتے ہیں۔ سب سے بے چین اور مضطرب لمحے ہی ہوتے ہیں کہ سال اور صدیوں کو اپنے دامن کی وسعت کی وجہ سے کئی واقعات اپنے اندر سمو کر امر ہو جاتے ہیں مگر یہ لمحے ہی ہوتے ہیں جن کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے انہیں اپنی شناخت کیلئے ایسے واقعات و کردار کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں امر کر دیں وہ لمحے کسی بھی واقعہ سے منسلک ہونے کیلئے تڑپتے ہوئے گزر جاتے ہیں جو انہیں ان کی کم عمری کے باوجود ابدی شناخت عطا کر دیتے ہیں۔ نظریاتی صحافت کے بانی نظریہ پاکستان کے محافظ پاسبان صحافت حمید نظامی مرحوم ایسی شخصیات میں سے تھے جو چمن میں دیدہ ور کی آمد کی طرح عرصہ دراز کے بعد آتی ہیں مگر اچانک آ کر جہاں سالوں اور صدیوں کو افتخار بخشتی ہیں وہیں لمحوں کو اپنی آمد سے انہماک کی بدولت تاریخ کے اوراق میں ابدی حیات بخش کر امر کی جاتی ہیں۔ بیسویں صدی کے نصف آخر کی آزاد صحافت میں حمید نظامی مرحوم کا نام و مقام بلا شبہ بلند و معتبر ہے وہ اس دور کی صحافت کا بطل جلیل ہے جس کی رشحات فکر و قلم نے تحریک آزادی اسلامی فکر و نظر اور سلطانیٔ جمہور کے تصور کو روشن و تابندہ کر کے مسلم معاشرہ کے عالم و عامی ہر خورد و بزرگ اور ہر خاص و عام کو آمادہ جدو پیکار کر دیا تھا۔ شعور کی آنکھ کھولتے ہی آپ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ عیار انگریز اور مکار ہندو اپنے خفیہ گٹھ جوڑ کے پیش نظر مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھنا چاہتے ہیں یہ دونوں فریق مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ وہ انہیں جہالت و افلاس کے اندھیروں میں دھکیل کر معاشی و معاشرتی اعتبار سے پسماندہ اور مفلوک الحال بنا دینے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔
آپ نے اپنی تحریرو تقریر کے آتشیں تیروں سے عیار انگریز اور مکار ہندو کے تزو یری حربوں اور مکرو فریب کے گھروندوں کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ مسلمانوں کو ہندوئوں کا اصل چہرہ دکھا کر یہ واضح کیا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی نعرہ ایک فراڈ ہے۔ آپ نے اپنی بے باک اور روشن تحریروں سے اس امر کی وضاحت کر دی کہ مسلمانان ہند کی منزل پاکستان ہے جس کا تصور علامہ اقبال نے پیش کیا اور جس کے لئے قائد اعظم اور دوسرے مسلم زعماء سر گرم عمل رہے۔ تحریک پاکستان کے چار بڑے حریف تھے۔ انہیں انگریز اور تحریک پاکستان کے چاروں مخالف متحارب طبقوں سے نبرد و آزما ہونا پڑا۔ جب انگریز حکمران اور ان کے کاسہ لیسوں نے تقسیم برصغیر سے قبل مسلمانوں کے قومی وجود کو عملاً ختم کرنے کی کوشش کی تو آپ ان کے خلاف پوری جرأت کے ساتھ سینہ سپر رہے اور اسلامیان برصغیر کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ جرأت و استقلال کا یہ مثالی کردار قیام پاکستان کے بعد بھی قائم رہا۔ جب پاکستانی حکمرانوں نے وطن عزیز میں اسلام جمہوریت کی روایات سمیٹ کر آمرانہ ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کیے تو آپ اس افسوسناک رجحان کے خلاف ڈٹ گئے۔ آپ نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تہلکہ خیز صحافت اور ولولہ انقلاب سے لبریز تحریروں سے اصنام عصر کو منہدم کرنے کا ابراہیمی کارنامہ سر انجام دیا۔ انگریزی استبداد اور اس کے مقامی جاگیرداروں ٹوڈیوں اور کا سہ لیسوں کے خلاف آپ نے ہمیشہ پرچم حق بلند رکھا۔ ظلم و ستم کے باوجود کبھی یہ مرد قلندر قصر سلطانی کے گنبدوں میں بسیرا کرنے پر آمادہ نہ ہوا ۔آپ نے ہمیشہ حق و صداقت کی وادیٔ پر خار کی طرف جانے والے راستے کا انتخاب کیا۔ حسب عادت آپ کا قلم انگریز اور ہندوئوں کے ٹوڈی مفاد پرست آمروں کے ہمنوا مردہ ضمیر سیاست دانوں کے گلے میں نشتر بن کر چبھتا رہا انگریز کے دور جبر و استبداد سے لے کر صدر ایوب خان کی اعلانیہ آمریت تک آپ کی جدو جہد مینارِ نور کی طرح تاریخ کے ادوار میں درخشاں و تابندہ رہے گی۔
23مارچ 1940ء کو آپ نے پندرہ روزہ نوائے وقت کا اجرا کیا اور صرف دو سال بعد نوائے وقت پندرہ روزہ سے ہفت روزہ ہو گیا اور 22جولائی 1944ء کو روزنامہ بن گیا 1959ء کے بعد ماہ و سال آپ کیلئے اور نوائے وقت کیلئے بڑی آزمائش ثابت ہوئے جب آپ نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت کی تو صدر ایوب خان نے اس آواز کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے اس دوران آپ عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے۔ 25فروری 1962ء کو صبح 11بجکر 25منٹ پر ماہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔