پاکستانی صحافت میں حمید نظامی صاحب کا نام ایک ایسے بے باک صحافی کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جنہوں نے ہمیشہ حق و صداقت، عوام اور ملک کے تحفظ اور بقا کے لئے اپنا قلم اور ذہن استعمال کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی وہ مسلم لیگ سٹوڈنٹس کے رہنما اور دلیر کارکن کی حیثیت سے نظریہ پاکستان کے پرجوش مبلغ اور ترجمان بن کر طلبہ اور عوام میں نظریہ پاکستان کی ترویج اور اشاعت کے لئے کمربستہ ہو گئے۔ ایم ایس ایف کا یہ دور نہایت ہیجان خیز تھا۔ ایک طرف انگریز حکومت دوسری طرف ہندو قوم پرست اور تیسری طرف سکھ شدت پسند اور چوتھی طرف نیشنلسٹ قوم پرست مسلمان دینی و سیاسی رہنما مسلم لیگ کی راہ میں دیوار بنے کھڑے تھے۔ اس طرح ایم ایس ایف پر دوسری ذمہ داری عائد ہو رہی تھی۔ ایک طرف تو پڑھے لکھے نیشنلسٹ طبقے کو نظریہ پاکستان کی طرف مائل کرنا اور دوسری طرف ہندو و سکھ اکثریتی فرقوں کا توڑ کرنا جو اپنے زور اور دھونس سے کالجوں اور سکولوں میں مسلم لیگ کے پیغام کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے تھے۔ اس پرآشوب دور میں جناب حمید نظامی کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں اور انہیں مسلم لیگی قیادت اور رہنماؤں کی بھرپور رفاقت اور حمایت حاصل ہوئی۔ اسی جذباتی دور میں جب ہر طرف قتل و غارت، مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ جاری تھی اور نظریہ پاکستان ایک حقیقت کی شکل میں ڈھل کر سامنے آ رہا تھا بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے تحریک کے اس پرجوش نوجوان کو مسلم لیگ کی آواز عوام تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی۔ یہ ایک عظیم رہنما کی نظر کا کمال تھا کہ اس نے دنیائے صحافت میں چمکنے والے اس ستارے کو پہچان لیا جو مسلم قوم کی ذہنی و نظریاتی رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
اس کے بعد جناب حمید نظامی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، نظریہ پاکستان مملکت خداداد اور پاکستانی عوام کی بقا اور حفاظت کا مشن ان کے دل و دماغ میں ایسا سمایا کہ انہوں نے اپنی ساری توانائیاں اس مشن کی تکمیل میں صرف کر دیں۔ یوں دنیائے صحافت میں ’’نوائے وقت‘‘ ایک علامت اور استعارہ بن کر پاکستانی عوام کی رہنمائی کرنے لگا۔ بدقسمتی سے بابائے قوم کی زندگی نے وفا نہ کی اور قائد ملت لیاقت علی خان بھی جلد شہید کر دئیے گئے۔ یوں سیاسی طور پر مسلم لیگ کے حقیقی رہنما اور کارکن پیچھے چلے گئے۔ نئے مطلب پرست گروہ اس پر ٹوٹ پڑے اور خوان ضیافت سمجھ کر مسلم لیگ کو جی بھر کر لوٹا اور ملک و قوم کو یتیم بنا دیا۔ اس دور میں نوائے وقت کے صفحات اور ادارئیے حمید نظامی مرحوم کے نظریات اور نظریہ پاکستان کی تفسیر بن گئے۔ ان کے قلم کی کاٹ ایک تلوار آبدر سے زیادہ توانا اور سخت تھی۔ انہوں نے ہر مطلب پرست جاہ پرست سیاستدان اور حکمران کو سرعام للکارا۔ جمہوریت اور کروڑوں پاکستانیوں کی حمایت میں ان کی آواز اور قلم کی طاقت نے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور ان جاہ پرست لیڈروں نے ہرممن طریقہ سے بزور طاقت نوائے وقت اور حمید نظامی کو خریدنا اور جھکانا چاہا مگر ایسا کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ حکمران آتے رہے جاتے رہے جناب حمید نظامی اور نوائے وقت کا چلن نہیں بدلا۔ اشتہارات بند ہوئے، اخبار بند کرنے کی پوری کوشش بھی حمید نظامی کے قلم کو روک نہ سکی۔ ان کا بے خوف سفر جاری رہا۔ جمہوری تماشہ ہو یا آمرانہ مارشل لاء کوئی ان کی راہ نہیں روک سکا۔ پے در پے صدمات اور مسلسل انتھک کام نے انہیں عارضہ قلب میں مبتلا کر دیا۔ اس کے باوجود انہوں نے ہار نہیں مانی اور اندرون ملک و بیرون ملک خود اپنے ہاتھ سے لگائے نوائے وقت کے پودے کی آبیاری کرتے رہے۔ صرف یہی نہیں کیا بلکہ اس پودے کو جناب مجید نظامی جیسے ذہین اور اپنے نظریات اور ملک و قوم کا حقیقی درد رکھنے والے نوجوان کو سپرد کر کے وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اور آج ناصرف نوائے وقت بلکہ نظریہ پاکستان اور مملکت خداداد پاکستان کو حمید نظامی کی انتھک جدوجہد اور فخر ہوتا ہو گا جنہوں نے اپنی زندگی اسی راہ میں لٹا دی اور اپنے بعد اس کام کے لئے جناب مجید نظامی جیسے دیدہ ور کو مشن سونپ کر اپنے رب کے حضور اطمینان سے پیش ہو گئے، ان کی ساری زندگی فیض کے اس شعر کی عکاس رہی…؎
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024