خیال جب نظریہ کا روپ دھار لے تو عقیدہ بن کر حیات جادواں سے منسلک ہو جاتا ہے، پھر وہی خیال و فکر اور نظریہ کی آبیاری‘ فروغ اور تحفظ انفرادی‘ گروپ ، پارٹی اور قوم کی زندگی کے لئے مشن بن جاتا ہے.... کس کو معلوم تھا کہ گزشتہ صدی کے ابتدائی حصہ میںمسلم حقوق کے تحفظ کے لئے تشکیل پانے والی آل انڈیا مسلم لیگ آگے چل کر ایک نئے ملک کا مطالبہ کرے گی۔ یہ وہ خیال تھا جسے نظریہ اور عقیدہ کا روپہ دھارنے کے لئے 4 عشروں کا عدیم المثال اور تاریخ ساز سفر طے کرنا پڑا۔ تحریک پاکستان کی کامیابی کا کریڈٹ مجموعی طور پر قائداعظم محمد علی جناح اور انکے ان بلند حوصلہ رفقاءکار کو دیا جاسکتا ہے جنہوں نے ہر محاذ اور ہر مقام پر پاکستان اور بانیان پاکستان کے افکار و خیالات اور پیغامات کا پرچم بلند رکھا۔ بلا شبہ جناب حمید نظامی کی جہدوجہد سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے علمی و فکری پلیٹ فارم سے نوجوانوں کو تحریک پاکستان کا صرف حصہ ہی نہیں بنایا بلکہ نوجوانوں کو تحریک پاکستان اور قیام پاکستان تک کی منازل میں ہر اول دستہ تک کے درجے پہ لے گئے۔ حمید نظامی صاحب ہماری قومی‘ صحافی اور سیاسی زندگی کا وہ ناقابل فراموش کردار ہیں‘ جن کے تذکرے کے بغیر تاریخ پاکستان کا اظہار مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ پاکستان سے غیر متزلزل وابستگی‘ قائداعظم کی لازوال قیادت سے غیر فانی محبت و عقیدت اور فروغ پاکستان کا مشن.... حمید نظامی کی زندگی‘ ان کے افکار اور ان کی جدوجہد نوجوانوں کے لئے آج بھی روشنی کا مینار ہے۔ صرف شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم ہی نہیں، تاریخ کے طلباءبھی شوق اور اشتیاق سے جناب حمید نظامی اور نوائے وقت کے روشن کردار سے واقف ہیں۔
ہمیں فخر ہے کہ ہم آج اس نوائے وقت کا حصہ ہیںجس کے بانی حمید نظامی تحریک پاکستان‘ قیام پاکستان اور تحفظ نظریہ پاکستان کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل رہے۔ ان کی وطن دوستی ضرب المثل بن گئی ہے۔ جناب حمید نظامی کے بعد ان کے برادر اصغر محترم مجید نظامی نے جس طرح پاکستانیت کے فروغ کی شمع فروزاں کی اس کا اعتراف ملک کے اندر اور بیرون ملک طمطراق انداز سے ہوتا ہے۔ نوائے وقت شعبہ میگزین اسلام آباد کا حصہ ہونے کے ناتے ہمیںسیاسی‘ سماجی‘ عوامی اور قیام پاکستان سے منسلک خاندانوں کی اولاد سے اگست کے آغاز میں انٹرویوز کے بار بار مواقع ملے، جب بھی قائداعظم اور پاکستان کا تذکرہ ہوتا ہے تو جناب حمید نظامی کی پاکستان سے عشق اور قائداعظم سے عقیدت کا ذکر خوبصورت پیرائے میں ضرور ہوتا ۔
جناب بشیرحسین ناظم (مرحوم) کہا کرتے تھے کہ پاکستانی قوم نظامی برادران کی مقروض ہے، وہ خدمت و ذکر خیر سے تاعمر دونوں بھائیوں کا قرض نہیں اتار سکتی۔ دو ہفتے قبل ہم سیٹلائٹ ٹاون راولپنڈی میں جناب حمید نظامی کے قریبی دوست راجہ حسن اختر کے صاحبزادے کرنل ریٹائرڈ سلطان ظہور اختر سے انٹرویو کر رہے تھے۔ جن کا کہنا تھا کہ ”پاکستانی صحافت میں حمید نظامی کی کمٹمنٹ ضرب المثل بن گئی ہے۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے والد محترم سے حمید نظامی کے گہرے مراسم تھے مجھے اپنے والد گرامی کے ایک مکتوب کے ذریعے جناب حمید نظامی کی رحلت کی اطلاع ملی۔ میں ان دنوں شاہراہ قراقرم کے منصوبے میں مصروف تھا میرے والد گرامی نے لکھا،، حمید نظامی کی موت میرے لئے مرگ ناگہانی سے کم نہیں، اتنا صدمہ تو اپنی والدہ کی وفات پر نہیں ہوا تھا۔ 25 فروری 1962ءکو محترم حمید نظامی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مجھے والد گرامی کا مکتوب یکم مارچ 1962 کی موصول ہوا تھا۔ اسی ملاقات میں کرنل سلطان ظہور نے بتایا تھا کہ ان کی حمید نظامی سے آخری ملاقات انکی وفات سے پندرہ روز قبل ہوئی تھی۔ راولپنڈی کے اسی علاقے میں ایک اور تحریک پاکستان کے عینی شاہد محمد خان نقشبندی قیام پذیر ہیں۔ 14 اگست 1947ءکو وہ گریجویشن کے طالب علم تھے۔ یہ اور ان کے کشمیری نوجوان دوستوں نے تحریک پاکستان میں عملی حصہ لیا، محمد خان نقشبندی لاہور میں زیر تعلیم تھے ان کی اکثر و بیشتر ملاقاتیں حمید نظامی سے ہوا کرتی تھیں ان کا کہنا تھا کہ حمید نظامی جیسا صاف ستھرا اور پاکستان سے عشق کرنے والا دوسرا تلاش کرنا مشکل ہے، ان کی سوچ پاکستان سے شروع ہوتی اور پاکستان پر ختم ہو جاتی ہے۔ قائد اعظم سے ان کی عقیدت کا اظہار لفظوں میں میرے لئے حد درجہ مشکل ہے۔ وہ بہت بڑے پاکستانی تھے، ان کے چھوٹے بھائی جناب جناب مجید نظامی جس قسم کے حالات میں اس نظریے اس اصول اور پاکستان سے محبت کی روشنی عام کر رہے ہیں وہ بھی ہماری تاریخ کا انمٹ حصہ ہے۔ اﷲ کریم مجید نظامی صاحب کو عمر خضر عطا کرے تاکہ وہ پاکستان کے کھلے اور خفیہ دشمنوں سے بخوبی نمٹ سکیں۔ چند دن قبل قومی اسمبلی نے ایک بل منظور کر کے پمز (ہسپتال) اسلام آباد کو میڈیکل یونیورسٹی کا درجہ دے کر اسے قائد اعظم کی جگہ ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب کیا۔ نوائے وقت نے جس انداز سے اس دلخراش سرگرمی کو رپورٹ کیا ‘ پھر اداریہ لکھا ہے وہ نوائے وقت اور جناب مجید نظامی کا طرہ امتیاز ہے۔ آج پاکستانیوں کی آواز کہیں سنی اور پڑھی جاتی ہے تو وہ نوائے وقت ہے یہ سب کچھ حمید نظامی کی اصول پسند پالیسی کا عطیہ ہے.... انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی کے ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن اور فاطمہ جناح یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمینہ امین قادر سمیت علم و ادب ‘ سیاست و تجارت اور دیگر شعبوں سے وابستہ شخصیات جب بطور خاص نوائے وقت اور نظامی برادران کا تذکرہ کرتے ہیںتو ہم جیسے کارکنوں کا دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے۔
تذکرہ بانی نوائے وقت کا....!!
Feb 25, 2013