ہمارے معاشرے نے اپنا تمام تر بوجھ، ریزہ ریزہ، اذیت زدہ انسانوں کے جھکے ہوئے کاندھوں پر ڈال دیا ہے۔ جناب شیخ رشید احمد کا بوجھ پورے ملک کے تمام کے تمام سیاست دانوں کے مجموعی ”وزن“ سے زیادہ ہے کیونکہ انہیں پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، نون لیگ اور قاف لیگ میں باقاعدہ داخل ہونے اور باقاعدہ ”فارغ التحصیل“ قرار پا جانے کے ”شرف“ کے ساتھ ساتھ جناب پرویز مشرف کی ’ہم جمالی‘ اور ’ہم نشینی‘ سے بھی ”مشرف“ ہونے کا ”درجہ¿ کمال“ بھی حاصل ہے! جنابِ پرویز مشرف کی عمومی رسوائی سے سبق حاصل کرنے کے بعد انہیں ”عوامی“ رسوائی سے ”مشرف“ کرنے کی غرض سے ان کے لئے ایک ”عوامی مسلم لیگ“ تیار کرنے کا بیڑا اٹھایا مگر ”پان“ کھانے کے باقی ماندہ ”لوازمات“ مہیا نہ کرنے کا بہانہ بنا کر یہ ”گلورا“ سب کے سامنے زمین پر تھوک دیا!
یاروں نے دوبارہ تسلی دی تو ”نواز شریف کی ضمانت“ ضبط کروانے کے ایجنڈے کے ساتھ ایک بار پھر میدان میں اتر آئے! جناب نواز شریف نے جناب شیخ رشید احمد کے تقابل میں ایک نوجوان امیدوار کھڑا کر دیا تو جناب شیخ رشید احمد کے منہ میں پانی آ گیا کہ ایسا تازہ اور شاندار ”شکار“ انہیں پہلے کبھی میسر نہ آ سکا تھا! لہٰذا انہوں نے اپنی ”جیت“ کا اعلان ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ کرنا شروع کر دیا! مگر جناب شکیل اعوان بھی ان کی عادات و اطوار سے واقف ہونے کے سبب بالکل ”بھولے بادشاہ“ بن کر کھائی کے کنارے آ کھڑے ہوئے! جناب شیخ رشید احمد نے انہیں ”غافل“ سمجھ کر پورے زور سے چھلانگ لگائی، ”نوجوان ہرن“ ایک طرف چوکڑی بھر گیا! جناب شیخ رشید احمد اپنے ہی زور میں زمین پر آ رہے اور کھائی کا کنارہ کمزور ہونے کی بنا پر مٹی سمیت کھائی کی گہرائی میں ”مٹی مٹی“ ہو گئے! شکر ہے کہ مٹی کے ساتھ مٹی نہیں ہوئے اور اپنی شکست کے اسباب میں سے ”نوجوان ہرن“ کی چالاکی کو چھوڑ کر باقی تمام اسباب بیان کرنے کے لئے بالکل ”صحیح سالم“ موجود ہیں! شکست کی ”ذلت کا احساس“ تو صرف ”کارکنوں“ کے لئے ہوتا ہے! قائدین تو ہارتے جیتتے رہتے ہیں! ”ہار جیت“ ان کے کھیل میں کوئی رخنہ نہیں ڈال پاتی!
رات گئے جناب شیخ کی گفتگو سن کر احساس ہو رہا تھا کہ یہ ”زاہدِ خشک“ حقیقت پا گیاہے۔ ”رازِ ہستی صرف اسی پر کھلا ہے! اور ہم اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے گھر سے نکلنے ہی والے تھے کہ ”کلپنگس“ چلنے لگیں! حتیٰ کہ ان کی آخری تقریر کی ”کلپنگ“ دیکھ کر احساس ہوا کہ انہوں نے ”پاکستان پیپلزپارٹی“ میں رہ کر وقت ضائع نہیں کیا، ”دروغ گوئی، موقع شناسی، عوام کی کمزوریاں“ اور نجات دہندہ کے درودِ بامسعود کی خواہش زبان پر آنے سے پہلے اپنے آپ کو ”نجات دہندہ“ کے طور پر پیش کرنے کی ”عادت“ انہیں وہیں پڑی ہو گی! جماعت اسلامی میں قیام کے دوران انہوں نے ”زباں بگڑی دہن بگڑا“ کی اصلاح کے لئے ”پلاسٹک سرجری“ کروائی اور ”نون لیگ“ کی ٹکٹ نے انہیں سب کچھ چھوڑ کر باہر نکل آنے پر اُکسایا اور ٹکٹ نہ ملنے پر نون لیگ چھوڑ کر ”آزاد امیدوار“ کے طور پر نواز شریف کے حق میں مہم چلا کر میدان مار لیا! اس کے بعد انہوں نے جناب پرویز مشرف کا شکار کیا مگر جناب محمدعلی درانی نے انہیں شکار کر لیا تو دونوں کے خلاف وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے تھے!
اب تو وہ خیر سے اپنی ”یک رکنی جماعت“ کے سربراہ بھی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس عوام کو ”محروم“ کرنے کی تربیت کے ساتھ عوام کو ”احساسِ محرومی“ سے محروم کر دینے کا ”ہنر“ بھی آ گیا ہے! کوئی بھی انہیں ”سرمایہ“ فراہم کر دے تو سب کچھ ”زیرو زبر“ کر سکتے ہیں! لیکن تازہ ترین خبر یہی ہے کہ ”عوام“ نے انہیں پہلے ”زیرو زبر“ کا مزہ چکھایا پھر انہیں ”تہہ و بالا“ کے معانی سمجھائے اور پھر اپنے کاندھوں پر اٹھا کر انہیں ان کے گھر چھوڑ آئے! خدا کرے کہ آخری خبریں آنے کے بعد بھی وہ ”گھر“ میں رہنے کے ”وعدے“ پر قائم رہیں! اور دوبارہ کسی ٹی وی چینل پر عوام کو بدظن کئے رکھنے کا ایجنڈا لے کر سامنے نہ آئیں! کیونکہ انہیں لفظ ”چُن“ اور ”گِن“ کر دئیے گئے ہیں اور یہ منتخب ”لفظ“ اور ان الفاظ کی ”گنتی“ اتنے کم ہیں کہ وہ یہ ”کام“ جاری رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے!
راولپنڈی میں ایک میدان میں ”ایک سیاست دان، ایک سیاسی جماعت“ اور ”ایک طرزِفکر“ نے شکست کھائی ہے اور یہ عوام کی بہت بڑی فتح ہے!
یاروں نے دوبارہ تسلی دی تو ”نواز شریف کی ضمانت“ ضبط کروانے کے ایجنڈے کے ساتھ ایک بار پھر میدان میں اتر آئے! جناب نواز شریف نے جناب شیخ رشید احمد کے تقابل میں ایک نوجوان امیدوار کھڑا کر دیا تو جناب شیخ رشید احمد کے منہ میں پانی آ گیا کہ ایسا تازہ اور شاندار ”شکار“ انہیں پہلے کبھی میسر نہ آ سکا تھا! لہٰذا انہوں نے اپنی ”جیت“ کا اعلان ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ کرنا شروع کر دیا! مگر جناب شکیل اعوان بھی ان کی عادات و اطوار سے واقف ہونے کے سبب بالکل ”بھولے بادشاہ“ بن کر کھائی کے کنارے آ کھڑے ہوئے! جناب شیخ رشید احمد نے انہیں ”غافل“ سمجھ کر پورے زور سے چھلانگ لگائی، ”نوجوان ہرن“ ایک طرف چوکڑی بھر گیا! جناب شیخ رشید احمد اپنے ہی زور میں زمین پر آ رہے اور کھائی کا کنارہ کمزور ہونے کی بنا پر مٹی سمیت کھائی کی گہرائی میں ”مٹی مٹی“ ہو گئے! شکر ہے کہ مٹی کے ساتھ مٹی نہیں ہوئے اور اپنی شکست کے اسباب میں سے ”نوجوان ہرن“ کی چالاکی کو چھوڑ کر باقی تمام اسباب بیان کرنے کے لئے بالکل ”صحیح سالم“ موجود ہیں! شکست کی ”ذلت کا احساس“ تو صرف ”کارکنوں“ کے لئے ہوتا ہے! قائدین تو ہارتے جیتتے رہتے ہیں! ”ہار جیت“ ان کے کھیل میں کوئی رخنہ نہیں ڈال پاتی!
رات گئے جناب شیخ کی گفتگو سن کر احساس ہو رہا تھا کہ یہ ”زاہدِ خشک“ حقیقت پا گیاہے۔ ”رازِ ہستی صرف اسی پر کھلا ہے! اور ہم اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے گھر سے نکلنے ہی والے تھے کہ ”کلپنگس“ چلنے لگیں! حتیٰ کہ ان کی آخری تقریر کی ”کلپنگ“ دیکھ کر احساس ہوا کہ انہوں نے ”پاکستان پیپلزپارٹی“ میں رہ کر وقت ضائع نہیں کیا، ”دروغ گوئی، موقع شناسی، عوام کی کمزوریاں“ اور نجات دہندہ کے درودِ بامسعود کی خواہش زبان پر آنے سے پہلے اپنے آپ کو ”نجات دہندہ“ کے طور پر پیش کرنے کی ”عادت“ انہیں وہیں پڑی ہو گی! جماعت اسلامی میں قیام کے دوران انہوں نے ”زباں بگڑی دہن بگڑا“ کی اصلاح کے لئے ”پلاسٹک سرجری“ کروائی اور ”نون لیگ“ کی ٹکٹ نے انہیں سب کچھ چھوڑ کر باہر نکل آنے پر اُکسایا اور ٹکٹ نہ ملنے پر نون لیگ چھوڑ کر ”آزاد امیدوار“ کے طور پر نواز شریف کے حق میں مہم چلا کر میدان مار لیا! اس کے بعد انہوں نے جناب پرویز مشرف کا شکار کیا مگر جناب محمدعلی درانی نے انہیں شکار کر لیا تو دونوں کے خلاف وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے تھے!
اب تو وہ خیر سے اپنی ”یک رکنی جماعت“ کے سربراہ بھی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس عوام کو ”محروم“ کرنے کی تربیت کے ساتھ عوام کو ”احساسِ محرومی“ سے محروم کر دینے کا ”ہنر“ بھی آ گیا ہے! کوئی بھی انہیں ”سرمایہ“ فراہم کر دے تو سب کچھ ”زیرو زبر“ کر سکتے ہیں! لیکن تازہ ترین خبر یہی ہے کہ ”عوام“ نے انہیں پہلے ”زیرو زبر“ کا مزہ چکھایا پھر انہیں ”تہہ و بالا“ کے معانی سمجھائے اور پھر اپنے کاندھوں پر اٹھا کر انہیں ان کے گھر چھوڑ آئے! خدا کرے کہ آخری خبریں آنے کے بعد بھی وہ ”گھر“ میں رہنے کے ”وعدے“ پر قائم رہیں! اور دوبارہ کسی ٹی وی چینل پر عوام کو بدظن کئے رکھنے کا ایجنڈا لے کر سامنے نہ آئیں! کیونکہ انہیں لفظ ”چُن“ اور ”گِن“ کر دئیے گئے ہیں اور یہ منتخب ”لفظ“ اور ان الفاظ کی ”گنتی“ اتنے کم ہیں کہ وہ یہ ”کام“ جاری رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے!
راولپنڈی میں ایک میدان میں ”ایک سیاست دان، ایک سیاسی جماعت“ اور ”ایک طرزِفکر“ نے شکست کھائی ہے اور یہ عوام کی بہت بڑی فتح ہے!