آج بانءپاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہے۔ صحافت کے میدان میں اس ناچیز کی حثیت ہی کیا، بڑے بڑے نامور دانشور، صحافت کے میدان کے کئی سکہ بند اہل قلم آج کے دن کی مناسبت سے اس عظیم ہستی کی ذات کے حوالے سے بیشمار مضمون لکھیں گے جن میں وہ بتائیں گے کہ خوش شکل، خوش لباس، خوش گفتار اور مردانہ وجاہت کا مالک یہ شخص اور کن کن اوصاف کا مالک تھا جنکی وجہ سے تاریخ اس بات کا جواز فراہم کرتی ہے کہ کیوں اس شخص کو اسکے دور کے دوسرے ساتھیوں سے افضل اور معتبر گردانا جانا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ جب وہ اس شخص کی achievements پر بات کرتی ہے تو وہ صرف اس نقطہ پر بات نہیں کرتی کہ کس طرح اس شخص نے اپنی دن رات کی محنت سے ہندوتوا ذہنیت کو جانچتے ہوئے انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کرکے مسلمانوں کیلیئے ایک الگ ملک کی بنیاد رکھی۔ بلکہ وہ اسکے ساتھ ان اصولوں کو ہائی لائٹ کرتی ہے جسکی وجہ سے اس شخص کو A man of Principals and integrity کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم کی حیثیت سے جب فریڈم فائٹرز کے متعلق بات کی جاتی ہے تو انٹلیکچولز کے نزدیک انبیاءاکرام کا درجہ اس سباق سب سے اول درجہ میں شمار ہوتا ہے کیونکہ ہر نبی اپنے دور میں اسی ظلم، جبر، ناانصافی، بربریت، inequality کے خلاف حق گوئی کرتے ہی ملتا ہے جو ایک فریڈم فائٹر کی پہچان ہوتی ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی فریڈم فائٹر اس سٹرگل پر نکلتا ہے تو دراصل وہ انہی انبیاءکرام کی سنت کی پیروی کر رہا ہوتا ہے جسے ہم مسلمان جہاد کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ دوسرے تمام انبیاءسے افضل ہے لہٰذا ہم میں سے ہر مسلمان اپنے لئے یہ بات باعث فخر سمجھتا ہے کہ وہ تمام زندگی اسوہ حسنہ کی پیروی کرے۔ کفر کے خلاف حضور نبی اکرم نے پہلے دن سے جو بات کی اور فتح مکہ تک جو آپ نے سٹرگل کی اسکا ایک ایک لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپکی یہ ساری سٹرگل پرامن اور بغیر کسی تشدد کے عنصر سے عبارت تھی حتی کہ صلح حدیبہ آپ دیکھ لیں کہ آپ حضور نبی اکرم کی فراست نے اسے کیسے پرامن طریقے سے حل فرمایا۔ اس سباق قائداعظم نے آزادی کیلئے اپنی ساری عمر جو پاور سٹرگل کی اس پر ایک نظر ڈالیں تو اسکا ایک ایک ایپی سوڈ سنت نبوی کی پیروی کرتے ملتا ہے اور اس میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ملتا جہاں یہ عنصر دکھائی دے کہ اس جدوجہد میں کہیں بھی طاقت کا استعمال یا قانون شکنی کا کوئی عمل سرزد ہوا ہو۔ لہٰذا تاریخ جب قائداعظم کو یہ اعزاز بخشتی ہے کہ وہ اسلام کا سچا سپاہی تھا تو بیشک انکا ہر عمل اور کردار اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انھوں نے وہ تمام اصول اپنائے جو سنت نبوی کا عکس تھے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زندہ قومیں اپنے لیڈران کی صفات کو اپناتی ہیں۔
ہم مسلمانوں کے نزدیک حضور نبی اکرم سے بڑھ کر ہمارا کوئی لیڈر نہیں۔ لغت کی زبان میں نبی کی صفات کی پیروی کرنا سنت نبوی اور نبی کے علاوہ اگر کوئی شخص ہو تو اس شخص کی صفات کو اپنانا اس کی legacy کو carry کرنے سے تشبہیہ دی جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، جو ہم میں سے ہر شخص کو اپنے آپ سے بھی پوچھنا چاہیئے کہ آج کے روز جب ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر ان کی شخصیت انکے کردار انکے اوصاف پر ان گنت مضامین لکھ رہے ہیں ہم میں سے وہ کتنے اشخاص ہیں جو سنت نبوی کے داعی اسلام کے اس سچے سپاہی کے افکار کی لیگیسی کو carry کر رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے شعر میں یہی پوچھا تھا کہ “یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو، بتاو¿ تو مسلمان بھی ہو؟"۔ اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں تو اس سباق مفلسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ مفلسی کے اس بازار میں یہ خاکسار اکیلا ہی نہیں بلکہ اس ملک کی اشرافیہ اور خاص کر بیوروکریسی جو قوم کیلیئے رول ماڈل ہوتی ہے وہ بھی اپنے ہمرکاب ہی ملتی ہیں سوائے چند ایک کے، جن میں مرشد مجید نظامی، ڈاکٹر ظفر الطاف اور ڈاکٹر صفدر محمود جو اب زندہ نہیں رہے، ایسے کردار تھے جنکے اعمال اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ قائداعظم کے حقیقی فالورز تھے۔ جبکہ ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر ایک اور کردار کا ذکر کر سکتا ہوں جو ابھی زندہ ہے اور جسکا نام ڈاکٹر آصف جاہ ہے اور آجکل وفاقی ٹیکس محتسب کی سیٹ پر کام کر رہا ہے۔ یہ ستمبر 2000ءکی بات ہے جب اس خاکسار نے اپنی زندگی کی پہلی کتاب “ کچھ یادیں کچھ حقیقتیں لکھی” جس میں ایک باب “ آج کے عیسیٰ” کے عنوان سے لکھا گیا۔ اس باب میں جہاں ایک انگریز ڈاکٹر میلکم جے کاپکوٹ کے اللہ پر تقویٰ اور ایک ڈاکٹر طاہر کی اپنے وطن پاکستان سے کمٹمنٹ کا ذکر کیا گیا وہیں پر اس درویش صفت انسان ڈاکٹر آصف جاہ کے متعلق لکھا گیا کہ کسٹم کے محکمہ میں رہتے ہوئے جہاں صبح اپنے اور اپنے اہل خانہ کیلئے یہ دنیاوی آلائشوں سے پاک رزق کماتا ہے وہیں شام کو یہ کسٹم ہیلتھ کئیر کے نام پر ایک کلینک چلاتا ہے جہاں پر مستحقین کا یہ فری علاج کرتا ہے۔ 1997ءمیں جب سے اس درویش نے اس نیک کام کا آغاز اس وقت سے لیکر آجتک، جب یہ وفاقی محتسب کے منصب پر کام کر رہا ہے جہاں کہیں، چاہے وہ کشمیر ہو یا شمالی علاقہ جات، بلوچستان ہو یا چولستان یا وزیرستان ملک کو آفات کا سامنا کرنا پڑا پاک فوج کی طرح یہ اپنا رفاعی دستہ لیکر انکے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ستارہ امتیاز سے ایوارڈ یافتہ چہرے پر متانت اور وجاہت سمیٹے اپنے روّیوں کی عاجزی کے علمدار اس شخص کا ذکر اس لئے کیا کہ کاش ہر پاکستانی اس مرد قلندر کی طرح قائداعظم کی شان میں قصیدہ گوئی کے علاوہ قائد کی چھوڑی لیگیسی کو بھی اپنائے تا کہ جب عالم ارواح سے قائد اپنے پیچھے چھوڑے اثاثے پر نظر ڈالیں تو انہیں یہ اطمینان ہو کہ انہوں نے اپنے پیچھے کھوٹے سکے نہیں، روشن چراغ چھوڑے ہیں۔
قائداعظم اور روشن چراغ
Dec 25, 2024