بھارتی پارلیمنٹ میں 73سال بعد دوبارہ دو قومی نظریہ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ مودی نے بھارت میں اقلیتی برادری کے لیے سخت سے سخت قوانین لاگو کر کے بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کی تشریح کرتے ہوئے اِسے جتوا دیا ہے۔ مطلب تو یہ ہوا کہ بھارت میں صرف اور صرف ہندو ہی آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ 1947 سے قبل جو ہندو انتہا پسندی عروج پر تھی، بھارت مودی کی قیادت میں پھر سے وہ تاریخ دہرانے جارہا ہے لیکن فرق محض اتنا ہے کہ 2020 میں کٹہرے میں مسلم کمیونٹی کے علاوہ سکھ برادری بھی شامل ہے۔ بھارت میں جب سے ’’کسان اصلاحات‘‘ بلز نے قانون کی شکل اختیار کی ہے، مودی سرکار کی پوری کوشش ہے کہ سکھوں کو حقوق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا جائے۔ واٹرکینین، آنسو گیس حتیٰ کہ ہائی وے جانے والے راستوں کی کھدائی کر لی گئی تاکہ کسانوں کے مارچ کو روکا جاسکے لیکن سکھوں کی بے باکی نریندر مودی کو چیلنج کر رہی ہے۔ دوسری جانب سرکار کی ہٹ دھرمی کہ کسانوں کے مطالبات کو تسلیم بھی نہیں کیا جارہا۔ انہی ہنگاموں کے باعث 28نومبر 2020 کو ’’دِی اکانومسٹ‘‘ میگزین کے چارٹ کے مطابق بھارت میں جمہوریت کا گراف نیچے گر رہا ہے۔ جمہوریت کے عدم تحفظات اور مودی کی اس چالبازی کو سکھوں نے بخوبی بھانپ لیا ہے اور تمام سکھ نوجوان نسل کو سمجھ آچکی ہے کہ اب مودی کے چنگل سے آزادی سخت محنت، جدوجہد اور ہوشیاری سے ہی ممکن ہے ورنہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سکھوں کے سامنے ہی ہے۔
مزید برآں گزشتہ دِنوں بھارتی کرکٹر یوراج سنگھ کے والد یوگ راج نے مودی کے خلاف کھلم کھلا اعلانِ بغاوت اور خالصتان تحریک کو فعال کرنے کی اپیل کر دی ہے۔ یاد رہے کہ UNO نے 2020 میں ’’خالصتان‘‘ کے تناظر میں ایک ریفرنڈم کروانا تھا کیونکہ خالصتان بنانے کی تائید ماسٹر تارا سنگھ نے کر دی تھی۔ ہوا یوں کہ 15اگست 1947ء کو پنجاب کی علیحدہ سکھ ریاست کو بننے سے روکنے کے لیے جواہر لال نہرو نے ماسٹر تارا سنگھ جیسے بے باک آدمی کو اقتدار کا لالچ دے کر سہانے خواب دکھائے اس کے بعد اندرا گاندھی نے پنجاب کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں منقسم کر کے سکھوں کو ایک تہائی اکثریت سے محروم کر دیا۔ سکھوں نے بہت گریہ زاری کی کہ ہمارا ایک بار پھر بٹوارا کیا جا رہا ہے لیکن اندرا گاندھی نے ایک نہ سنی اور چند بڑے عہدوں پر سکھوں کو تعینات کر دیا تاکہ کوئی شورش نہ پنپ سکے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماسٹر تارا سنگھ نے جان لیا کہ ان سے بڑی غلطی سرزرد ہوگئی ہے۔ وہ ’’جناح اور نہرو‘‘ میں فرق محسوس نہ کر سکے اور سکھ قوم کو برھما سماج کی غلامی میں دھکیل دیا۔
لہٰذا سکھ قوم کو ہندوؤں کے چنگل سے نجات پانے کے لیے بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ زندگی کے آخری لمحات میں ان کے الفاظ یہ تھے کہ ’’ان کی روح کو اس وقت شانتی ملے گی جب سکھ مذہب کی اپنی ریاست اور اپنا راج ہوگا۔ خالصہ پنت ضرور آزادی لے کر رہے گا‘‘۔ اب سکھ برادری موجودہ صورتحال پر کفِ افسوس مَل رہی ہے کہ کاش ہم جناح کی بات مان لیتے۔ وہ اپنی احتجاجی ریلیوں میں قائدِاعظم زندہ باد! کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ اسی طرح ٹھیک ایک سال قبل 2019 میں بھی ’’شہریت متنازع بل‘‘ کے لیے مسلم سٹوڈنٹس ’’جناح والی آزادی‘‘ کی مودی سے ڈیمانڈ کر رہے تھے، جس پر بھارتی میڈیا سراسیمگی کے عالم میں سوالیہ نشان بنا رہا کہ اب کونسی جناح والی آزادی مانگی جا رہی ہے؟ بلاشبہ یہ اُس تجربہ گاہ کی طلب ہو رہی ہے جس کا خاکہ قائدِ ملّت نے 13جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے بیان فرمایا تھا کہ ایسی سرزمین جس میں عقائد اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے کوئی پابندی نہ ہو۔ درحقیقت قائدِاعظم محمد علی جناح جیسا بڑا لیڈر برصغیر میں پیدا نہیں ہوا اور چشمِ فلک نے دیکھ لیا کہ جناح نے پژمردہ اور مایوس قوم کو ایک زندہ و منفرد تشخص رکھنے والی مسلم قوم میں تبدیل کرکے دوقومی نظریہ پیش کیا۔ علیحدہ مملکت کی آئینی کاوشوں کے دوران کئی پیچ وخم آئے لیکن آہنی عزم رکھنے والے قائد کی پیشانی پر شکن تک نمودار نہ ہوا۔ اسی پیہم جدوجہد سے لاکھوں انسان آگ اور خون کے دریا سے گزرے۔ بیٹیوں، بہنوں کے دامنِ عصمت تارتار ہوئے اور بالآخر مملکتِ خداداد پہنچے۔ قائدِاعظم ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا کیا۔ مذکورہ بالا حالات و واقعات کے تناظر میں مجھے قائدِاعظم کی عظمت پر احمد فراز کا شعر یاد آگیا: ؎
کس سے آلامِ زمانہ کی شکایت کرتے
واقفِ حَال کوئی بھی تو نہ تھا تیرے بعد
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024